• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فنانس بل 2019کے تحت ہر طرح کے موٹر سائیکلوں، اسکوٹروں، گاڑیوں، موٹر کیب، ویگنوں، بسوں اور دیگر وزن اٹھانے والی چھوٹی بڑی گاڑیوں پر یکم جولائی سے مختلف النوع کے ٹیکس عائد کئے جا رہے ہیں۔ ہر طرح کی موٹر سائیکل پر پوری زندگی کے لئے ایک ہزار روپے سے لیکر پانچ ہزار روپے، ایک ہزار سی سی تک گاڑیوں پر لائف ٹائم 10ہزار روپے، اس سے اوپر مختلف النوع گاڑیوں پر 12ہزار روپے سالانہ تک ٹوکن ٹیکس فیس وصول کی جائے گی۔ کمرشل بنیادوں پر چلنے والی گاڑیوں پر 600روپے اور ایک ہزار روپے سالانہ جبکہ ویگنوں سے لیکر بسوں تک فی سیٹ 200روپے سے لیکر 500روپے سالانہ تک ریٹ مقرر کئے گئے ہیں۔ وزن اٹھانے والی گاڑیوں پر 500روپے سے لیکر 4000روپے سالانہ تک ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ اس وقت متذکرہ تمام گاڑیوں پر صوبائی سطح پر پہلے ہی تمام ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق متذکرہ وصولیوں کا دائرہ کار ویسٹ پاکستان وہیکل ٹیکسیشن ایکٹ 1958ء جو اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری میں بھی نافذ العمل ہے، کے تحت ملک گیر سطح تک یکم جولائی سے بڑھایا جا رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ فیصلہ ملک کی مکمل 21کروڑ سے زیادہ آبادی کے ہر فرد پر لاگو ہو رہا ہے تاہم 70فیصد سے زیادہ عام افراد جو روزانہ موٹر سائیکلوں، ویگنوں، بسوں پر سفر کرتے ہیں یا منڈیوں سے مارکیٹوں تک بار برداری کی صورت میں اشیائے ضرورت کی نقل و حمل ہوتی ہے، یہ سب پہلے ہی پٹرول کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں سے زیر بار ہیں، غریب عوام کیونکر زندگی کی گاڑی کو کھینچ سکیں گے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ زندگی کی تمام اشیا و خدمات پر ٹیکس پہلے ہی سے نافذ ہیں لیکن کرپشن، بدعنوانی جیسے منفی عوامل بیشتر قومی آمدنی سرکاری خزانے تک پہنچنے نہیں دیتے، جس سے غیر متوازی و غیر قانونی معیشت فروغ پا رہی ہے۔ یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی کی مکمل بیخ کنی کی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین