• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ایک بات غور طلب ہے۔ وہ یہ کہ جرائم کی خبروں کی خوب خوب تشہیر ہونا چاہئے یا نہیں۔ اس موضوع پر مجھے علم نہیں کوئی مباحثہ ہوچکا یا نہیں، لیکن اگر ہوا بھی ہے تو اس کے دو پہلوؤں ہی پر بات ہوئی ہوگی۔ ایک تو یہ کہ جرائم کی خبروں کی تشہیر سے مجرموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ تھانے میں لکھی جانے والی رپٹ کی بنیاد پر تفتیش کے وہ فرسودہ طور طریقے ختم ہوئے۔ اب ہر کونے کھدرے میں لگا ہوا کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ اکثر جرائم کی تصویر کشی کر لیتا ہے اور نہ صرف مجرم باآسانی پکڑا جاتا ہے بلکہ اس کے جرم کا ثبوت بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی سائنس نے غیرمعمولی ترقی کی ہے، مجرم کا پکڑا جانا آسان ہوگیا ہے۔ ابھی لندن میں ایک رات بس میں سفر کرتی ہوئی دو خواتین کو نو عمر لڑکوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور بری طرح زخمی کر کے فرار ہوگئے۔ پولیس نے صبح ہونے سے پہلے پہلے لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔ شاید ہی کوئی دن جاتا ہوگا جب ہم ٹیلی وژن پر اس طرح کی وارداتیں نہیں دیکھتے۔ یوں بھی برطانیہ اور خاص طور پر شہر لندن میں چاقو زنی اتنی عام ہوگئی ہے کہ سڑک پر چلتے ہوئے ذہن میں کہیں خوف کا سایہ منڈلا رہا ہوتا ہے۔

اس مباحثہ کا دوسرا استدلال بھی توجہ طلب ہے۔ وہ یہ کہ جرائم کو اتنی شہرت دے کر آپ بیمار ذہن کے لوگوں کو اس طرف توجہ دلا رہے ہوتے ہیں۔ بےشمار لوگ زندگی میں پہلا جرم کرتے ہوئے پکڑے گئے تو ہر ایک نے کہا کہ اس نے ٹی وی پر دیکھا تو تحریک ہوئی کہ ایسا تو وہ خود بھی کر سکتا ہے۔ جرم کو شہرت ملتی ہے تو اس وبا کو تحریک بھی ملتی ہے، یہ بات طے شدہ ہے۔ میں ایک واقعہ کبھی نہیں بھول سکتا۔ کراچی میں ایک ادھیڑ عمر چوکیدار نے ایک کمسن لڑکی پر مجرمانہ حملہ کیا جس کے بعد اس نے لڑکی کو ہلاک کر کے اس کی لاش گھر کے پیچھے ایک گڑھے میں پھینک دی۔ کم بخت پکڑا گیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ یہ تم نے کیا کیا تو اس نے کہا کہ میں خبروں میں آئے دن اس طرح کی وارداتوں کا حال سنا کرتا تھا۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ میں بھی کر کے دیکھوں، کیسا لگتا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ کبھی کبھار کا نہیں، آئے دن کا قصہ ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے قدرت نے عورت کو ظلم سہنے کے لئے بنایا ہے۔ ان ہی دنوں بچوں کا عالمی دن منایا گیا اور خاص طور پر ان بچوں کی بات کی گئی جنہیں اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے مشقت کرنا پڑتی ہے، چاہے وہ اینٹوں کا بھٹہ ہو یا کچر ے کا ڈھیر۔ اس معاملے میں بھی ہم نے اکثر نو عمر لڑکیوں کو ظلم سہتے دیکھا۔ وہی واقعہ جو ہزار بار ہوچکا ہے، حال ہی میں پھر ایک بار ہوا اور ایک گھرانے میں نوکری کرنے والی کمسن لڑکی کو اس کی مالکن نے اس بری طرح مارا پیٹا کہ اس کی انگلیاں ٹوٹ گئیں اور بے چاری لڑکی رات دو بجے کسی ویران سڑک پر بھاگتی ہوئی ملی۔ آج کل کے میڈیا کا کمال ہے کہ لڑکی اور اس کی ٹوٹی ہوئی انگلیاں ٹیلی وژن پر دیکھی گئیں اور پولیس کو حرکت میں آنا پڑا۔ ادھر وہ بد بخت مالکن اور اس کا شوہر گھر میں تالا ڈال کر روپوش ہوگئے اور یقین ہے جلد پکڑے جائیں گے اور قانون ان کے ظلم کا حساب بیباق کرے گا۔ مگر جیسا کہ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں، اس طر ح کے ظلم ڈھانے والوں کے شدید نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں جو بدہیبت بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔

ایسے میں ذہن بار بار بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اس آٹھ سال کی مسلمان بچّی کی طرف جاتا ہے جسے درندہ صفت لوگوں نے ایک مندر میں بند کرکے اور کئی روز اسے نشہ آور دوا پلا پلا کر بے سدھ رکھا اور کئی افراد کئی روز تک اس بچی کی آبروریزی کرتے رہے اور آخر اسے مار کر لاش جنگلوں میں پھینک دی، جسے خوب کچلا اور روندا گیا تھا۔ اس پر پورے ملک میں برہمی کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف احتجاج کی آواز بلند ہونے لگی۔ اہم بات یہ ہے کہ انتہا پرستوں نے مجرموں کی حمایت شروع کردی۔ ان کی گرفتاری پر احتجاج کیا اور عدالت میں مظلوم بچّی کے وکیلوں کو داخلے سے روکا۔ اسی دوران تین پولیس والوں نے مجرموں کو بچانے کے لئے جرم کی شہادتیں ضائع کردیں۔ ان کو پانچ پانچ سال قید کی سزا ہوئی اور پھول جیسی لڑکی پر مجرمانہ حملہ کرنے والے تین افراد کو عمر قید کی سزا سنادی گئی ہے۔ اس سلسلے میں آٹھ افراد گرفتار کئے گئے تھے جن میں ایک سرکاری اہلکار، چار پولیس والے اور ایک نابالغ لڑکا شامل تھا۔ ان میں سے ایک بری ہوگیا اور لڑکے پر الگ مقدمہ چلے گا۔ ان سب نے اقبال جرم سے انکار کیا۔

نہیں معلوم یہ اطلاعات کے ذرائع کا کیا دھرا ہے یاحقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں جرائم بہت زیادہ بڑھتے جارہے ہیں۔ جرائم پیشہ لوگ دلیر ہوگئے ہیں اور سی سی ٹی وی کی پروا کئے بغیر دن دہاڑے لوٹ مار کرتے پھر رہے ہیں۔ بھرے بازار میں ایک شخص بینک سے کئی لاکھ روپے لے کر نکلا، ڈاکو باہر اس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ایک خاتون اپنی کار سے اتر رہی تھیں، ابھی پوری اتری بھی نہیں تھیں کہ ان کی کنپٹی پر پستول رکھنے والے صاحب یوں کھڑے تھے جیسے کار کا دروازہ کھولنے والے خیر خواہ کھڑے ہوتے ہیں۔

ہم کچھ کہیں تو جواب ملتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں یہی ہوتا ہے اس لئے ہم نے طے کیا ہے کہ کچھ کہنا بیکار ہے، ہم کچھ نہیں کہیں گے۔

تازہ ترین