• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیپلز پارٹی جس نے آئین 1973ء کے مطابق جمہوریت کی پٹڑی پر حکمران جماعت کی حیثیت سے اقتدار کا سفر مکمل کیا ،نے عوام کے لئے، یہ نہیں کہ کچھ نہیں کیا، بلکہ جو بنیادی سہولتیں انہیں حاصل تھیں وہ بھی ان سے چھین لیں۔ ان میں سب سے بڑی عوامی ضرورت بجلی ہے پھر لاکھوں مزدوروں کا روزگار جو کرپشن کے نتیجے میں فیکٹریاں اور پاور سپلائی سے چلنے والی مشینوں کے بند ہونے سے ختم ہوگیا، سے غربت اور عوامی بے چینی میں شدید اضافہ ہوا۔ پیپلز پارٹی ورلڈ بینک کے سینکڑوں اربوں روپے بینظیر کے نام پر غریبوں کو بانٹ کر ووٹ پکے کرتی رہی اور انرجی کے پیدا کئے گئے بحران کے باعث غربت بھی بڑھتی رہی۔یہ بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ،ورلڈ بینک ، جو اب ترقیاتی فنڈز کی فراہمی میں بہت محتاط ہوگیا ہے نے کس طرح ارباہا روپیہ”تخفیف غربت“ کے نام پر ایک سیاسی نوعیت کے پروگرام کو پاکستان میں دیا جو خود ورلڈ بینک اور بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسیوں کی اپروچ Capicity buildingکے خلاف ہے یعنی ”بنیادی ضروریات سے محروم غرباء میں ان ضرورتوں کی براہ راست ڈلیوری کی بجائے ان میں ان ضرورتوں کے خود حصول کی سکت پیدا کی جائے“ پھر”بینظیر انکم سپورٹ پروگرام“ میں50ارب روپے کی کرپشن اور بے قاعدگیوں پر بھی یہ پروگرام نہ جانے کیسے جار ی رہا؟ یہ تو لگتا ہے کہ جیسے ورلڈ بینک بھی حکمرانوں کی تمام تر اور کھلی کرپشن کے باوجود ان کی سیاسی جماعت کو سنبھالا دینے کے لئے ترقی پذیر ممالک کے سماجی و ترقیاتی اہداف کے حصول کے لئے اپنی ترقیاتی اپروچ Capicity buildingکے برعکس پاکستان کے عوام کی فلاح کے نام پر اپنے اربوں کے سیاسی مقاصد کے فنڈز جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپوزیشن تو ورلڈ بینک اور پیپلز پارٹی کے اس گٹھ جوڑ کا پردہ چاک کرنے میں ناکام رہی۔ اب پیپلز پارٹی جس نے خود کچھ عوام کے لئے نہ کیا اور پہلا بھی چھین لیا اور ارباہا کی بین الاقوامی فنڈنگ بھی سیاست کے لئے استعمال کی پھر الیکشن قریب آنے پر اپنی ضرروتیں لے کر دھڑلے سے عوام کے پاس آرہی ہے۔ عوام سے ووٹ لینے کی ضرورت سے بھی پہلے اس کی ضرورت یہ بن گئی ہے کہ اپنی مستقبل قریب و بعید کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے جنوبی پنجاب کو آئین میں ایک نیا صوبہ تسلیم کرالے۔ اس کے لئے اسے آئین میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے چونکہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن بھی نئے صوبوں کی تشکیل سے بنیادی طور پر اتفاق رکھتی ہے۔ خدشہ ہے کہ وہ پی پی کی نئی ضرورتیں پوری ہونے کے لئے اس کے نئے جال میں نہ پھنس جائے۔
اس موضوع پر وہ پہلے بھی معصومانہ فیصلہ کرچکی ہے اور اے این پی کے ساتھ خیر سگالی کا اظہار کرتے کرتے وہ خیبر پختونخوا میں اپنی پرزور حامی بہت بڑی پاکٹ ہزارہ و گلیات میں دراڑ ڈالی چکی ہے۔ اے این پی ہے کہ آج بھی پی پی کی سچی و پکی ا تحادی ہے اگر اب بھی ن لیگ جنوبی پنجاب کے بااثر سیاستدانوں کی سیاسی علاقائی اور محدود سوچ کے باوجود ان کے ساتھ خیر سگالی اور یکجہتی پر آمادہ ہوگئی اور لسانی اور سب کلچر کی بنیاد پر نئے صوبے بنانے پر آمادہ ہوگئی تو یہ ملکی یکجہتی اور خود مسلم لیگ ن کے لئے بہت مہلک ہوگا۔ پیپلز پارٹی جو آئین میں 24 ویں ترمیم لاکر اپنی سیاسی ضرورت پوری کرنے کے لئے بیتاب ہے کو نئے صوبوں کی تشکیل پر کوئی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔ ویسے تو سیدھا سادا اصول ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل صرف اور صرف انتظامی امور کو بہتر بنانے اور سرکاری معاملات کے حوالے سے عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہونی چاہئے نہ کہ علاقائی خاندانوں کو نئے حکمراں خاندان بنانے کے لئے۔
بہتر ہوگا کہ اپوزیشن نئے صوبوں کی تشکیل کے لئے کوئی بھی قرار داد اسمبلی میں لانے کے لئے حکمراں جماعت کی مکمل حوصلہ شکنی کرے اور اس حساس قومی ضرورت کو عوامی حوالوں سے پورا کرنے کے لئے اس پر اپنی پختہ اپروچ اور عملی تجاویز الیکشن کے بعد نئی پارلیمنٹ میں لائے۔ اس سے بھی پہلے اس پر قوم کی رائے لینا بھی ضروری ہے۔ بھارت کی مثال کو یاد رکھا جائے کہ جہاں نئے صوبوں کی تشکیل کا بل اسمبلی میں لانے سے پہلے ایک سال سے بھی ز یادہ اس پر قومی مباحثہ ہوتا رہا۔ پیپلز پارٹی میں اب بھی عوامی ضرورتوں کا ذرا برابر بھی کوئی احساس باقی رہ گیا ہے اور قومی یکجہتی جیسے حساس موضوع پر اس میں کوئی معمولی حس بھی باقی ہے تو اسے بھی اس موضوع کو آئندہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دینا چاہئے۔ ایک ایسی حکومت اور حکمراں جماعت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود تو پانچ سال میں عوام کی کسی بھی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام رہی اور حاصل ضروریات بھی اس نے اپنی کرپشن سے کم اور ختم کردی ہوں ،وہ الیکشن کے موقع پر پھر سارا زور اپنی ہی ضرورت پورا کرنے پر لگادے لیکن توقع کے مطابق اگر وہ حقیقت پسندی سے اس پر آمادہ نہیں ہوتی تو اپوزیشن جماعتیں پنجاب میں اپنی تباہ پوزیشن کی بحالی اور جاگیرداروں اور ان کا انداز اختیار کرنے والے سیاسی خاندانوں اور گروہوں کی سیاسی ضرورت پوری کرنے کے لئے جلدبازی میں نئے صوبوں کی تشکیل کا کوئی بل کسی صورت منظور نہ ہونے دیں۔خصوصاً یہ بڑی ذمہ داری مسلم لیگ ن کی ہے اس کے علاوہ یہ بھی کہ وہ گورننس کی کوالٹی کو بہتر بنانے،عوام کو انتظامیہ کی روایتی موشگافیوں سے نجات دلانے اور لسانی بنیاد پر صوبوں کی تشکیل کی مزاحمت کے طور پر خود بھی نئے صوبوں کے قیام کا کوئی قابل قبول فارمولا تشکیل دے۔
میڈیا ،ملک تمام باشعور طبقات اور انتظامی امور کے ماہرین، سیاسی تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کو بھی یہ معاملہ محض سیاسی جماعتوں پر ہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے جبکہ ان کی تنظیم، ویژن اور قیادت بھی بحیثیت مجموعی تخفیف ہے۔ سو انہیں چاہئے کہ وہ نئے صوبوں کی تشکیل کی حساسیت اور اس سے عوام اور قومی اتحاد و یکجہتی کے گہرے تعلق کے باعث اپنی ذمہ دار ی پوری کرتے ہوئے اسے بہت سنجیدگی سے لیں اور اس پر اپنی تجاویز اور آراء کا کھلا اظہار کریں۔ حکمراں جماعت خود فقط علاقائی لیڈر بننے کے خواب دیکھنے والوں اور چند علاقائی بااثر سیاسی خاندانوں کی سیاسی دکانداری کی ضرورت پوری کرنے میں فریق بننے کی بجائے ضروری یہ ہے کہ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ کس میں عوامی ضروریات پورا کرنے کی سکت کتنی ہے؟ پھر یہ کہ سٹیٹس کو کی غالب قوتوں کو یہ احساس بہت شدت سے دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ جمہوریت سے مخلص ہیں تو اب جمہوریت کا یہ ماڈل ہرگز نہیں چلے گا جو عوام کے حقوق غصب کرکے منتخب نمائندوں کو ناجائز طور پر نوازتا ہے۔ قومی و سیاسی معاملات کا بلند شعور رکھنے والی وکلاء اساتذہ اور دوسری پیشہ ورانہ تنظیموں کو بھی چاہئے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور قائدین کے سامنے اپنے اپنے منظم سوالنامے سامنے لائیں اور ان کے جواب ان سے مانگیں خصوصاً پیپلز پارٹی سے جسے ملک لٹنے کی قربانی دے کر عوام نے فقط اور فقط جمہوریت کے لئے پانچ سال تک حکومت کرنے دی۔ پیپلز پارٹی قومی سیاست میں نئے نئے موضوعات لاکر خود قبل از انتخابات جیتنے اور لاجواب عوامی سوالات سے بچنے کی حکمت عملی ا ختیار کئے ہوئے۔ اچانک کینیڈین شیخ الاسلام کے ساتھ شیر و شکر ہوجانا بھی اس سیاسی و انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ تبدیلی اور عوامی خدمت کی علمبردار جماعتیں ہوشیار رہیں۔
تازہ ترین