• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
کامران فیصل اگر فیض صاحب کے مندرجہ بالا اشعار پرعمل کرتا تو شاید آج ہمارے درمیان ہوتا اور وطن کی فضا اتنی سوگوار نہ ہوتی، سپریم کورٹ کو خود سارا مسئلہ اپنے ہاتھوں میں نہ لینا پڑتا۔ بس اس کی رپورٹ ہی کافی ہوتی، مگر قدرت کو جو منظور ہوتا ہے وہ چیزیں انسان کے بس سے باہر ہیں یا باہر کردی جاتی ہیں۔ اس جوان موت پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے، میں کامران فیصل کے ساتھیوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے دیانتدار اور اصول پرست جوان افسر کی موت پر آواز اٹھائی، یکجا ہوئے، مصلحتوں کو بالائے طاق رکھا، حق کی آواز بلند کی، خدا انہیں اس کا اجر دے گا۔ میں نے اپنے بچپن میں سنا تھا کہ خون ناحق کبھی چھپتا نہیں اور قاتل اپنا کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ جاتا ہے، اسکول میں یہ شعر بھی پڑھاتے تھے
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
پھر جوانی میں جب آئے تو کالج میں طلبا تحریک کے دوران نعرے لگاتے تھے۔
ظلم پھرظلم ہے ، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے کا تو جم جائے گا
کاش کامران فیصل کے کیس میں بھی ایسا ہی ہو اور حقیقت سامنے آجائے، لوگ کہتے ہیں کہ معجزے صرف پرانے زمانوں میں ہی ہوتے تھے، ایسا نہیں ہے، اگر سپریم کورٹ نے کامران فیصل کے قاتل بے نقاب کر دیئے تو یہ بھی معجزہ ہی ہوگا۔ لوگوں کو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، معجزے آج بھی ہوتے ہیں دیکھنے والی آنکھ چاہئے۔ سپریم کورٹ نے جو کیمروں کی فوٹیج منگوائی ہے یہ نہایت ہی حوصلہ افزا چیز ہے اور یہ اس مسئلے کو حل کرنے میں بڑی معاون ثابت ہو گی۔ باقی واقعاتی شہادتوں کو تو مبینہ طور پر مسخ کر دیا گیا ہے لیکن پھر بھی اگر فوٹیج سے کوئی چیز مل جاتی ہے تو بقیہ شہادتوں کو استعمال میں لا کر کیس کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے کراچی میں کلفٹن تھانے کا ایس ایچ او سیال بھی اپنے گھر پولیس لائن کے اندر سویا ہوا اللہ کو پیارا ہوگیا تھا اور وہ معمہ بھی آج تک حل نہیں ہوا۔ اس کے لئے کسی نے آواز بھی نہیں اٹھائی تھی۔ پولیس کا محکمہ بڑا ہی مصروف محکمہ ہے اور ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہوتی ہے، کوئی دوسرے کی مصیبت میں اپنی ٹانگ اڑانا نہیں چاہتا، شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی میں شہید ہونے والے پولیس افسران کی گنتی آئے دن بڑھتی رہتی ہے اور محکمے کی رونق اور شان و شوکت میں کوئی کمی نہیں آتی چونکہ افراتفری کا عالم ہے اس لئے ہر افسر اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور کسی دوسرے کے معاملے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتا۔ خاص طور پر کراچی میں قتل تو تمدن کا حصہ بن گیا ہے صبح ناشتے کی میز پر اخبار میں گزشتہ دن کا اسکور ابھی پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ ٹی وی کے نیوز چینل پر نئی اننگ کا آغاز ہو جاتا ہے اور صبح کا اسکور اسکرین کے ٹکرز کے اوپر نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ میں تقریباً اپنے ہر کالم میں اس مسئلے پرکچھ نہ کچھ لکھتا ہوں کبھی تو لکھتے وقت یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی پرانی تحریر دہرا رہا ہوں لیکن ایسا نہیں ہوتا ہر روز نئی خبر ہوتی ہے جو کہ پرانی خبر کے تسلسل میں ہوتی ہے اور طریقہ واردات، موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم نوجوان اور 9MM کی پستول کا طریقہ استعمال ایک ہی ہوتا ہے ملزمان نا معلوم سمت بھاگ جاتے ہیں اور کبھی ہاتھ نہیں آتے۔
گزشتہ سال چیف جسٹس آف پاکستان کراچی تشریف لائے تھے اور کراچی کے مسائل اور خاص طور پر لا اینڈ آرڈر کے مسئلے پر بہت کام کیا تھا، اس وقت کے آئی جی صاحب نے عدالت میں بتایا تھا کہ ان کی 40 فیصد فورس سیاسی لوگوں کے زیر اثر ہے اور آئی جی کو ایس پی کے ٹرانسفر کا بھی اختیار نہیں ہے ایسی صورت میں کمانڈ میں بہت مشکل ہوتی ہے ان کے اس بیان کے بعد ان کا ٹرانسفر ہوگیا تھا یہی وجہ ہے کہ کوئی بڑا افسر ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔ گزشتہ 24گھنٹوں میں28/افراد کی ہلاکتیں لمحہٴ فکریہ ہے، اس وقت تو یہ حال ہے کہ اگر زندہ بچ گیا یہی غنیمت ہے، بات فیصل کامران کی موت سے شروع ہوئی اور نہ جانے کہاں بھٹک گئی، آج کا کالم فیصل کامران کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں۔ میں اس کی زندگی میں اسے بالکل نہیں جانتا تھا اور نہ ہی کبھی ملنے کا اتفاق ہوا تھا مگر ان کی بے وقت اور پُراسرار موت نے ان کے بارے میں اخباری خبریں اور تجزیئے پڑھنے پر مجبور کردیا اور جتنا زیادہ پڑھا اتنا ہی مرحوم کے نزدیک آتا گیا۔
ابھی تک کی معلومات کے مطابق مقتول نہایت قابل، فرض شناس اور دلیر افسر تھا جو کہ رشوت سے کوسوں دور تھا، اس کے اندر ایسے کوئی آثار نہیں پائے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ خودکشی کرے۔ ملزمان کو گرفتار کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ ناحق خون چھپ نہیں سکتا اور قاتلوں کا سراغ مل جائے گا اور وہ تختہ دار تک پہنچیں گے۔ آخر میں پھر فیض صاحب کا شعر حسب موقع لگا تو درج کئے دیتا ہوں
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
تازہ ترین