• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محسوس یہ ہوا کہ واہگہ سے گواد ر تک سب ہی اصل انقلاب کے خواہاں ہیں۔ ایس ایم ایس سے فون سے سب نے میری تحریر کی داد دی اور کہا کہ ا نقلاب کی تلاش جاری رکھئے۔ اب آپ کو کیا سمجھائوں بہت پہلے میں کہہ چکا ہوں:

خواہشِ انقلاب میں یوں تو

یار لوگوں کے دل مچلتے ہیں

شاید ان کو خبر نہیں اس میں

جان جاتی ہے سر اچھلتے ہیں

ایک سوال بار بار یہ بھی ہوتا ہے کہ پکڑ دھکڑ وی آئی پی ہورہی ہے۔ لیکن پیسہ تو ایک بھی واپس نہیں مل رہا ہے۔ اب کمیشن بن رہا ہے۔ پہلے بھی بہت کمیشن بنے۔ حمود الرحمن کمیشن۔ میمو گیٹ کمیشن۔ کیا فائدہ ہوا۔ بات تو ٹھیک ہے۔ قومی خزانے میں ضرورت ہے۔کچھ جمع کرانے کی۔ مزید خرچوں کا بوجھ نہ ڈالیں۔ بجٹ نے بھی خسارے بڑھادیے ہیں۔ بے چاری قوم کو اگلے بجٹ تک پیٹ پر مزید پتھر باندھنے ہوں گے۔ معیشت اعداد و شُمار۔ سنجیدہ امور ہیں۔ماہرین معیشت ہی صحیح بتاسکتے ہیں کہ نئے بجٹ منصوبوں سے ہمارے حالات بتدریج بہتر ہوں گے کہ نہیں۔ خواتین کسی بھی پارٹی کی ہوں۔ ان کے بجٹ پر تبصرے مزید خسارے کی جانب لے جاتے ہیں۔ معاشی مشکلات جذباتی لفاظی سے آسان نہیں ہوسکتیں۔

کراچی کے سعید علی تلاش رزق میں بصرہ(عراق) پہنچے ہوئے ہیں۔ لیکن دل پاکستان میں اٹکا ہوا ہے۔انقلابوں کی سر زمین عراق میں ’پاکستان میں اصل انقلاب کیوں نہیں آتا‘ نے ان کا دل جیت لیا ہے۔ درد مند ہیں۔ اس لئے عراق بالخصوص بصرے کی جیل میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لئے اپیل کالم میں شامل کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے پاس ہوائی ٹکٹ کے پیسے نہیں ہیں۔ اس لئے اجنبی دیار کے زنداں میں دن کاٹ رہے ہیں۔ جس طرح سعودی عرب، ملائشیا سے پاکستانیوں کو واپس لایا گیا ہے ان ستم زدگان کے لئے بھی کچھ کیا جائے۔ مہذب قومیں اپنے ایک شہری کی واپسی کے لئے بھی دن رات ایک کردیتی ہیں۔ ہم بے نیاز ہیں۔ ہم وطنوں پر کیا گزرتی ہے۔ ہماری بلا سے۔ ہم تو ان پاکستانیوں کو بھی بھول گئے۔ جو پاکستان کے لئے لڑتے رہے۔ پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں چار دہائیوں سے بد ترین حالات سے دوچار ہیں۔ کوئی تو ان کے لئے آواز اٹھائے۔

اداسی ہمارے شہروں کی دیواروں پر بال بکھیرے سورہی ہے۔کامریڈ نجم الحسن عطا نے فون پر اطلاع دی کہ صبح حسیں کی تلاش میں گھومنے والا۔ حرف کی حرمت کے لئے لڑنے والا راحیل اقبال ایک اسپتال میں زندگی سے منہ موڑ گیا۔ مجھے 80اور 90کی دہائیاں یاد آگئیں۔ گہری خوبصورت آنکھوں والا ہرلمحے مسکراتا جواں سال راحیل اقبال اور بہت سے سیاسی کارکنوں کی طرح اچھے دنوں کی آرزو میں سخت موسموں کا مقابلہ کررہا تھا۔ اپنی جمع پونجی بھی خرچ کررہا تھا۔ حیات مستعار کی سانسیں بھی۔ کبھی کوئی رسالہ نکالتا کبھی کوئی اخبار۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنی وابستگی ترک کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ہزاروں نظریاتی کارکنوں کی مانند وہ بھی نظر انداز ہوتا رہا۔ راحیل اقبال جیسے پڑھے لکھے وفادار کارکن ہی قومی سیاسی پارٹیوں کی اصل طاقت ہوتے ہیں۔ ایسے جاں نثار نہ ہوتے تو پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔ یہ نہ ہوں تو انتخابی جلسے پھیکے پھیکے رہتے ہیں۔ انہی پروانوں نے :

بٹ کے رہے گا ہندوستان

لے کے رہیں گے پاکستان

کے فلک شگاف نعرے بلند کرکے مسلم لیگ کو کامیاب بنایا۔ پھر یہ پاکستان کی مادر جماعت ان کو بھول گئی۔ سرداروں۔ خانوں۔ چوہدریوں۔ نوابوں۔ ملِکوں میں گھِر گئی۔ 1958سے آج تک یہی کارکن احتجاج کے عندلیب بن کر گاتے رہے۔

لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی۔

ظالمو جواب دو۔ خون کا حساب دو

1958کی خزاں سے سیاسی کارکنوں کی دیوانگی دیکھتا آرہا ہوں کہ روکھی سوکھی کھاکر جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے۔ کوئی بھی تحریک چلتی۔ تو اس کی رونق یہی ہوتے ہیں۔ آج کل تو پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیاں ہیں۔ ہر سیاسی لیڈر کے پاس محافظوں کا دستہ ہے۔ بلٹ پروف گاڑیاں ہیں۔ پہلے یہی کارکن اپنے لیڈر کے ہر اول دستے اور سیکورٹی گارڈز کے فرائض ادا کرتے تھے۔ اور بغیر کسی معاوضے کے ۔

قومی سیاسی پارٹیوں میں سب ہی اقتدار کے مزے اڑا چکی ہیں۔ اپنے جاں نثار کارکنوں کے ساتھ سب کا سلوک سوتیلی مائوں بلکہ اجنبی امیر زادیوں جیسا ہے۔ ان سے نہیں پوچھا جاتا گھر کیسے چل رہا ہے۔ بچوں کی فیسیں کب سے نہیں دیں۔ گھر میں راشن ہے یا نہیں۔ ان کارکنوں کے خاندان جمہوریت کی چوکھٹ پر قربان ہو گئے۔ میں نے بہت سے خاندان مختلف شہروں میں دیکھے۔ جن کے اثاثے سیاسی جدو جہد کی نذر ہوگئے۔ یہ خود یا گھر کا فرد کوئی بیمار پڑا تو پارٹی سے کوئی عیادت کے لئے آیا نہ ہی کسی نے اسپتال کے بل کی ادائیگی میں مدد کی۔بڑے لوگ حکومت میں ہوں یا باہر وہ اپنے بیرون ملک علاج پر لاکھوں ڈالر خرچ کردیتے ہیں۔ لیڈر ناظم آباد سے ڈیفنس۔ بھاٹی سے گلبرگ منتقل ہوتے رہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے رہے۔ کارکن وہیں ٹین کی چھتوں والے گھروں میں مختلف جمہوری دَور دیکھتے رہے۔

آزادی اور جمہوریت کا نام لیتے ہمارے حلق نہیں سوکھتے۔ لیکن آزادی اور جمہوریت دونوں کے اجزائے ترکیبی تو صرف یہی کارکن ہوتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا پاکستان مسلم لیگ(ن) یا مسلم لیگ(ق) ۔عوامی نیشنل پارٹی۔ بلوچستان عوامی پارٹی۔ جمعیت علمائے اسلام کوئی بھی اپنے کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لئے باقاعدہ منصوبہ نہیں بناتا۔ جو کارکن مختلف تحریکوں میں پیش پیش رہے۔ ان کے لئے کوئی ایوارڈ نہ انعام۔ میرے خیال میں تو تحریک پاکستان کے کارکنوں کے لئے بھی ایسے کوئی وظائف مقرر نہیں کیے گئے۔ بھارت میں اب تک تحریک آزادی کے لیڈروں کارکنوں کے لئے خصوصی مراعات ہیں۔ ایوب خان کے خلاف مزاحمتی جلسے جلوس ہوں۔ یا یحییٰ خان کے خلاف ریلیاں۔ بھٹو صاحب کے مدّ مقابل جلسے جلوس۔ پھر جنرل ضیا کی آمریت کو للکارنے والے کارکن۔ بعد میں تحریک بحالیٔ جمہوریت ۔ تحریک نجات اور اسی قسم کی کوششیں۔ کارکنوں کی نسلیں ان تحریکوں کو نتیجہ خیز بناتی رہیں۔ لیکن ان کارکنوں کو کیا ملا۔ ان میں سے اکثر ایسے تھے جو ذاتی طور پر کچھ نہیں چاہتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ جب خلقت کے دن بدلیں گے تو میرے بھی بدل جائیں گے۔کارکنوں کا خیال رکھنے والی پارٹیوں میں جماعت اسلامی سر فہرست ہے۔ وہ کارکن کے روزگار مالی حالات کا خیال کرتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی کارکنوں کی بہبود کو اہمیت دیتی تھی۔ بعض پارٹیوں میں ایسے متمول افراد ہوتے ہیں جو پارٹی کا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ ان میں سے ہی کچھ عید بقر عید پر کارکنوں کو نقد امداد فراہم کردیتے ہیں۔ کارکن بیمار یا زخمی ہوجائے تو پہلے دو تین دن تو تصاویر کھنچتی ہیں۔ جب دیکھتے ہیں کہ اب یہ کارکن پارٹی کے لئے کچھ نہیں کرسکے گا تو اس سے آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں۔ اب آپ ہی بتایئے اصل انقلاب کیسے آئے گا؟

تازہ ترین