• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکومت ہی کی وجہ سے عوام شدید معاشی و انسانی مصائب تلے آگئے ہیں ،یہ ایک دن کی نہیں برسوں کی المیہ داستان ہے جس کے کردار مختلف سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ رہےہیں۔البتہ موجودہ دور میں چونکہ مہنگائی بے لگام کردی گئی ہے،لہذا لگتاہےکہ شاید یہ حکومت اپنے پیش رو سے بھی زیادہ عوامی دکھوں میں اضافے کا باعث ہے۔چونکہ مستقبل میں معیشت کی درستی کےدعوے عوام کی غالب اکثریت کی نظر میں کھوکھلے نظر آنے لگے ہیں اسی سبب ایک خوف بھی ان سے دامن گیر ہوا ہے۔

یوں غیر یقینی کی صورتحال بنتی نظر آرہی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت پرعوامی عدم اعتماد بڑھنے کی بڑی وجہ اس حکومت کے منتخب وزرا کی ناقص کارکردگی اور غیر منتخب لوگوں پر انحصار ہے۔یہ بات اب مخصوص لوگوں سے کوچوں و بازاروں میں جا پہنچی ہے کہ حکومت بیرونی قرضوں کی مرہون منت ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ڈکٹیشن ہی پر مہنگائی کے اس طوفان سے بھی آنکھوں چرائی ہوئی ہے جو اس حکومت کے سیاسی مستقبل کیلئے نیک شگون نہیں۔سوشل میڈیا اور ابلاغ کے دیگر جدیدذرائع کے باوصف عوام یہ بھی اب جاننے لگے ہیں کہ کس طرح آئی ایم ایف اور دیگر قرضہ دینے والے ادارے اپنی قسطوں و سود کیلئے کڑی شرائط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کی ادائیگی کیلئے پاکستان کی موجودہ و سابقہ حکومتیں ماسوائے عوام و تنخواہ دار طبقے پر بوجھ لادنے کے اور کسی کا م کے تجربے سے عاری ثابت ہوتی رہی ہیں۔ یہ بجٹ البتہ سابقہ ادوار کےمیزانیوںسے یوں منفرد ہے کہ اب تک پیش کئے جانے والے بجٹ ہفتوں ،مہینوں بعدسمجھ میں آتے تھے کہ عوام کے ساتھ کیاہاتھ ہوگیا ہے لیکن موجودہ بجٹ نے ایسے کوئی راز نہیں پالے ،اس بجٹ میں بہت واضح ہے کہ کس طرح لاچار عوام کے ہاتھ پائوں باندھ کر حکومت نےآئی ایف ایم کے سامنے پھینک دئیے ہیں۔ بلکہ بجٹ تقریر میں یہاں تک کہہ دیاگیا کہ چینی ’’کے نرخ میں صرف‘ ‘ساڑھے تین روپےفی کلو اضافہ ہوگا اور اگلے ہی روز چینی فی کلو 70سے 80روپے ہوگئی۔یعنی ’’صرف‘‘10روپے فی کلو اضافہ ہوا۔ اس طرح شوگرملزمالکان نے راتوں رات کروڑوں روپے کمالئے ،ظاہر ہے اس میں اپوزیشن کے وڈیرے و صنعتکار بھی شامل ہیں۔ بجٹ دستاویزات کےمطابق اگلے مالی سال کے دوران ملکی و غیرملکی قرضے کی واجب الادا سود کی ادائیگی پر 359.764 ارب روپے، غیر ملکی قرضوں کی اصل رقوم کی بعض ادائیگیوں پر دس کھرب روپےاور ملکی قرض کی واجب الادا سود کی ادائیگی پر20 کھرب سے زائد خرچ ہونگے، یعنی آدھے سے زیادہ بجٹ قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگا ۔باالفاظ دیگر سود درسود پر لئے گئےقرضوں کا سود اداکرنے کیلئے ہی عوام وملازمین پر ٹیکسوںکا پہاڑ لاد دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ حکومت عوامی اعتبار اپنے عمل سے ہی کھو رہی ہے۔

دلچسپ مگر باعث تشویش امر یہ ہے کہ اپوزیشن پر بھی عوام اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں،یوںایک سیاسی خلا پیدا ہورہا ہے ۔یہ بھی دلچسپ امر ہےکہ حکومت و اپوزیشن ہردو پر بے اعتباری کی وجہ کھوکھلے نعرے ہی ہیں۔مثال کے طور پر روٹی کپڑا مکان کا نعرہ پیپلز پارٹی کا گویا استعارہ تھا،لیکن1970سے یہ جماعت چارمرتبہ وفاق میں برسراقتدارآئی ، لیکن ہر آنے والی حکومت میں عوام کےپاس پہلے سے موجود ضروریات زندگی بھی کم ہوتی رہیں ۔یہ درست ہے کہ 1988میں برسراقتدار آنے کے بعد پیپلز پارٹی نے عوامی حکومت بننے کیلئے کچھ پیش رفت کی ، سیاست کے احیا، ملازمتوں کی فراہمی ،کچی آبادیوں کو لیز جیسے عوامی کارنامے اس جماعت کے ریکارڈ پر ہیں،راقم یہ سمجھتاہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوریت اور عوام سے کمٹمنٹ اخلاص پر استوار تھی،لیکن جنرل نصیر اللہ بابر جیسے لوگوں نے جہاں اُن سے کسی کیلئے طالبان بنوانے کا کام لیا،وہاں بعد ازاں جو دور آیا وہ کرپشن کی ایسی داستانوں تلے آباد تھا جس میں بہرصورت محترمہ کا ہاتھ تو نہیں تھا،لیکن کرپشن میں رنگےہاتھ بھی وہ ’ بہ وجوہ‘ قابو میں نہیں لا سکیں۔

موجودہ سندھ حکومت کو دیکھ لیں ، روٹی ،کپڑا مکان تو کجا لوگ پانی کی بوند بوند کو ترسنےلگے ہیں۔جمعرات کو امل عمر قتل کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ’’ کراچی پاکستان کا بدترین شہر بن چکا ہے، کراچی میں ہونیوالی ترقی ختم ہورہی ہے، افسران پیسہ جمع کرنےمیں مصروف ہیں، صوبائی حکومت کے پاس کسی مسئلے کا حل نہیں‘‘ بنابریں اگرایک طرف مسائل کے بوجھ تلے دبے عوام سڑکوں پر آنے کی قوت سے محروم ہوچکے ہیں تو دوسری طرف وہ آزمائے ہوئے لوگوں کو پھر آزمانا کارِ زیاں بھی سمجھتے ہیں۔ اس امر میں دو رائے نہیں کہ جیالوں کی تاریخ سرمدی وقار سے مزین ہے لیکن شایداُن کا رومانس بھی اب بوڑھا ہوچکاہے۔ ظاہر ہے وہ بھی عوام ہی سے ہیں اور انہی مسائل سے دوچارہیں جن سے ملک کے دیگر لوگ نبرد آزما ہیں۔میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کی استقامت اپنی جگہ مگر مسلم لیگ کےخمیر میں جدوجہدوقربانی ہے ہی نہیں ۔متوقع اےپی سی سے سڑکوں پرآنےکا اعلان متوقع ہے ،لیکن ہماری توقع یہ ہے کہ ایسی صورت میں زیادہ ممکن یہ ہے کہ اپوزیشن رہنما عوام کے ’’نو لفٹ‘‘پر حبیب جالب کا یہ شعر کورس کے انداز میں سناتے ہوئے پائے جائیںگے۔

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

تازہ ترین