• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ، بھارت، پاکستان اور ترکی (چند افریقی اور لاطینی امریکی ممالک بھی) وہ ملک ہیں جہاں اقتدار کی مقررہ مدت کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے لئے انتخابی مہمات بہت زور و شور سے چلتی ہیں۔ یوں تو عام انتخابات کا انعقاد سب سے بڑی ملک گیر سرگرمی ہوتی ہے جو عام لوگوں کی شرکت سے تشکیل پاتی ہے لیکن متذکرہ ممالک، جہاں انتخابی مہم کا ’’الیکشن ائیر‘‘ مرضی کے عوامی سیاسی رجحانات تشکیل دینے کے اعتبار سے اہم ترین ہوتا ہے، میں انتخابی مہم عوامی سے کسی نہ کسی طرح رابطے کی شکل میں، قریب تین ماہ پر محیط ہوتی ہے لیکن امریکہ، بھارت پاکستان اور ترکی میں انتخابی مہم کا آخری (پولنگ والا) مہینہ ملک گیر سطح پر جارح ابلاغی مہم کا حامل ہوتا ہے۔ کمیونیکیشن سائنس اور اس میں پولیٹکل کمیونیکیشن کے (خصوصی حوالے کا) طالبعلم ہوتے ہوئے خاکسار کا محتاط تحقیقی مفروضہ (Hypothesis)ہے کہ اگر رائے عامہ کو متاثر کرنے والی موثر انتخابی مہمات کی اثر پذیری کو ماننے کے لئے متفقہ پیرا میٹر تیار کرلئے جائیں تو واضح طور پر یہی زیر بحث چار مالک موثر ترین انتخابی مہمات کے حامل ممالک قرار پائیں گے۔

20ویں صدی نے انسانی تہذیبی عمل کو سینکڑوں صدیوں تک انسانی معاشرے کی ترقی کے مقابل ایک ہی صدی میں بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ یوں جاری اکیسویں صدی میں ابلاغ اور ابلاغ عامہ کا عالمگیر عمل اور مسلسل بہائو سحر انگیز نتائج دے رہا ہے۔ غور فرمائیں! رواں صدی کے آغاز پر ہی تیز تر سیاسی ابلاغ کے حامل چاروں ممالک میں عشروں کا قائم اسٹیٹس کو ٹوٹنے کے امکانات پیدا ہوئے۔ اس کے ابتدائی اطرافی اثرات بھی ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں اور مزاحمت اور ردعمل کے نتیجے میں ابھی ہوتے رہیں گے۔ کیا افریقی نژاد سیاہ فام امریکی صدر باراک حسین اوباما کا وائٹ ہائوس میں داخل ہو جانا تبدیلی نہیں تھا؟پھر ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر بننا ان کے مخصوص، منفرد اور نرالے و دلچسپ رویے کے حوالے سے بھی اپنی جگہ بڑی تبدیلی ہے جس کا گہرا اثر پورے امریکی معاشرے، عالمی اور کئی علاقوں کی سیاست پر پڑا ہے۔ ہماری اپنی طویل بحری سرحد، قومی معیشت، سی پیک پر دبائو موجود ہے اور اب جو پاکستان کے سمندری بیک یارڈ خلیج اف اومان اور آبنائے ہرمز پر جو خطرناک کھچڑی پک رہی ہے، یہ ایسی ہی علاقائی تبدیلی کی واضح نشانی نہیں جبکہ یہاں پاکستان کا مستقبل میں اکنامک اور انرجی کاریڈور گوادر اہم ترین حیثیت اختیار کرگیا۔

جو تبدیلی بھارت میں انتخابی عمل کے نتیجے میں بھارتی آئین کی روح سیکولر ازم کے نیم مردہ ہوکر ہندو بنیاد پرستی کی علمبردار ہوکر بھی امریکی اور اسرائیلی اتحادی کے طور وزیراعظم مودی کی بطور منفی عالمی شخصیت واضح ہوکر اہم ہوئی، جس کے نتیجے میں عالمی خصوصاً جنوبی ایشیا، بحر ہند کے خطے اور ترکی تا پاکستان اور چین تا جبوتی (مشرقی افریقہ) ایک نہیں کتنی ہی شطرنج کی بساط لگا دی ہیں اور جو کچھ تشویشناک سائوتھ چائنا سی میں ہو رہا ہے اس پر تو ہمارا میڈیا کچھ بھی نہیں دے رہا اور ہم اس کے پاکستان سے تعلق کو سمجھنے سے غافل لگ رہے ہیں، جبکہ بھارت اس میں امریکی اتحادی بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ پندرہ سال میں پاکستان اور امریکہ کے سیاسی ابلاغ میں ایک ہی لفظ کے طاقتور بیانیے نے ایسی جگہ بنائی کہ دونوں ممالک میں اسٹیٹس کو ٹوٹ کر تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ پاکستان میں عمران خان نے بطور سیاستدان ’’تبدیلی‘‘ کا طاقتور بیانیہ باراک اوباما سے کافی پہلے دیا۔ اوباما دو مرتبہ منتخب ہوکر بھی امریکہ کو غیر ضروری اپنی ہی بنائی عالمی سیاست کے جھنجھٹوں سے نجات دلا کر مکمل فوکس امریکی غربا پر تو نہ کر سکے، حتیٰ کہ افغانستان سے بھی امریکہ کی جان نہ چھڑا سکے اور اب ٹرمپ صاحب کا رنگ اپنا ہی اور ایسا نرالا ہے کہ خود بڑے بڑے امریکہ نواز امریکی اور ان کے اپنے ساتھی بھی پریشان رہتے ہیں۔ ہمارے خان صاحب بھی آدھی تبدیلی لیکن بڑے اور ماضی میں ناممکن نظر آنے والے احتسابی عمل لیکن عوام کے لئے فوری کچھ نہ کر سکے۔ اس سب کے باوجود ان کی دیانت اور نیک نیتی یا برسوں کا تعصب یا سب کچھ مل کر، وزیراعظم عمران کے بھاگ سرحدوں سے باہر جاگ رہے ہیں۔ پاکستان جاری موجود پیچیدہ سیاسی اور گمبھیر اقتصادی حالت کے متوازی جو مناظر شنگھائی کو اپریشن کونسل میں بنے ہیں اس نے عالمی سیاست کی بہت جلد ہونے والی نئی صف بندی کو بالکل واضح کر دیا اور یہ اس کے ساتھ ساتھ تصدیق مشرق قریب یعنی پاکستان، ایران، افغانستان اور خلیجی خطے کی موجود صورتحال سے ہو رہی۔ شنگھائی فورم پر وزیراعظم عمران خان کو اہمیت ملی اور جس طرح ان کی پذیرائی ہوئی ہے، خصوصاً ان کی روسی وزیراعظم ولادیمیر پیوٹن سے ڈیڑھ گھنٹہ ملاقات اور اس سے ہٹ کر ان کی روسی صدر سے بار بار قربت اور اس میں غیر معمولی خوشگوار انٹر پرنسل کمیونیکیشن نے عالمی سیاست کے کئی محتاط اور اہم اندازوں کی تصدیق کر دی اور اس کے نتائج جلد نکلنے کے امکانات کو واضح کر دیا۔ باوجود اس کے کہ اپنی بےنیازی میں یا اناڑی پن میں خان صاحب سے ڈپلومیٹک کمیونیکیشن کے حوالے سے کئی فائول بھی نمایاں ہو رہے ہیں لیکن اپنی شخصیت ان کی مخصوص بیباکی اور سب سے بڑھ کر یہ لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کے برعکس سفارتی دائرے کا خاصا ہوم ورک کیا ہوا تھا، ان کی تقریر میں کونسل کے لئے پیش کئے گئے تعاون کے آٹھ نکات ایک نئے اتحاد کے امکانات کو واضح کر رہے ہیں جو ترکی سے لے کر مشرقی چین تک اور پاکستان سے لے کر روس اور ترکی تک وسیع تر تعاون و اشتراک کے امکانات کی خبر دے رہے ہیں۔ یہ صرف مجوزہ نہیں عالمی آبادی کے 70فیصد کی ضرورت ہیں، جس میں پاکستان کا کردار روس اور چین کے مساوی ہوگا۔ یہی ادا ہوگا تو بیل منڈھے چڑھے گی۔ اس صورتحال میں بھارت اور مودی جی کے لئے بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے، جو شنگھائی میں شاید ان کو ستا بھی رہا ہو کہ انہوں نے امریکہ کی طرح اپنے جغرافیے سے آزاد ہوکر کوسوں دور کے پارٹنر کے ساتھ اپنے خوابوں کو پورا کرنا ہے، جن کے پورے ہونے کا کوئی امکان نہیں، ماسوائے اس کے کہ وہ ’’نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کی ذہینت سے پورے خلوص سے کروڑ ہا غریب بھارتیوں کا بیڑا غرق کر دیں۔بہرحال جارح انتخابی مہمات نے امریکہ، بھارت، پاکستان ا ور ترکی کو ایسی قیادتیں دے دی ہیں جن میں سے پاکستان اور ترکی قیادتیں، روس و چین کے سا تھ اور مودی جی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مل کر عالمی سیاست کا نیا کھیل کھیلتے نظر آرہے ہیں۔

تازہ ترین