• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا عملاً پہلا بجٹ کسی قانونی مسئلہ سے بچنے کے لئے وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں پیش کیا جبکہ بجٹ امور کے انچارج مشیر خزانہ حفیظ شیخ تھے جو اسمبلی یا سینیٹ کے رکن نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمانی ضوابط کی وجہ سے بجٹ پیش نہیں کر سکتے تھے۔ میاں نواز شریف دور کا آخری بجٹ مفتاح اسماعیل بھی پارلیمنٹ کا ممبر نہ ہونے کی وجہ سے اسمبلی میں پیش کر چکے تھے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو دور کا پہلا بجٹ بھی وزیر مملکت مخدوم شہاب الدین نے پیش کیا تھا جبکہ اس وقت مشیر خزانہ جناب وی اے جعفری تھے۔ اللہ کی شان دیکھیں کہ PTIحکومت بجٹ کی تیاری کا کام سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کیا لیکن جب دیگ پک گئی تو اس کا لطف نئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور وزیر مملکت حماد اظہر نے اٹھایا۔ وزیر مملکت حماد اظہر پنجاب کے سابق گورنر میاں محمد اظہر کے صاحبزادے ہیں۔ ان کے خاندان نے بھٹو دور میں اتفاق فونڈری کو قومیائے جانے کے بعد سب سے زیادہ شریف فیملی کا ساتھ دیا تھا مگر حالات کیا سے کیا ہو گئے اور دونوں خاندانوں میں بات چیت بھی بند ہوگئی۔ بہرحال اب نیا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے۔ یہ بجٹ کسی خاص سیاسی ایجنڈے کی بجائے قومی معاشی ایجنڈے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ جس میں پہلی بار ٹیکس ریونیو بڑھانے اور دستاویزی معیشت کو یقینی بنانے کی طرف سفر کا آغاز کیا گیا ہے۔ جس کا سہرا یقینی طور پر حکومتی ٹیم کے ساتھ ساتھ نئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کو بھی جاتا ہے۔ جن کا تعلق ساری زندگی بڑی مالیت کا ٹیکس دینے والوں اور اس سے بھی زیادہ بڑی مالیت کا ٹیکس چھپانے والوں سے رہا ہے۔ نئے بجٹ کی دستاویز کی تفصیل میں جانے سے پتا چلتا ہے کہ اب پاکستان میں ٹیکس سے بچنے کے دروازے دو چار ماہ میں بند ہونے والے ہیں۔ یعنی نان فائلر کے طور پر کوئی کاروبار کرنا یا کسی جگہ پر اپنی سرمایہ کاری کو ’’پارک‘‘ کرنے کا دور ختم ہونے والا ہے۔ بشرطیکہ وزیراعظم عمران خان اور ایف بی آر کے حکام اپنے اس موقف اور پالیسی کو ماضی کی طرح کسی مصلحت یا مصالحت کا حصہ نہ بننے دیں۔ اس سے IMFاور عالمی بینک سے لے کر ہر بین الاقوامی ادارے کے پاس پاکستان کا اکنامک گورنس کے حوالے سے مثبت تاثر ابھر سکتا ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں ایک زیادتی تنخواہ دار طبقہ کے ساتھ ہوئی ہے، ان کے لئے ٹیکس کی چھوٹ کی مد چھ لاکھ تک رکھنا ہر لحاظ سے زیادتی ہے۔ یہ حد 8لاکھ سے زیادہ ہونا چاہئے تھی۔ اس لئے کہ نئے ٹیکس نظام کے تحت سب سے پہلے قابو آنے والا طبقہ تنخواہ دار ہی ہوتا ہے جس کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ نئے بجٹ میں اچھی بات نظر آئی کہ اس میں امیر طبقہ کے من مانے طریقے سے ٹیکس دینے کے دروازے بند ہوتے جائیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی ہر طرح کی اور ہر ذریعہ کی آمدنی کو دستاویزی حیثیت دینا ہوگی۔ دوسرا یہ کہ مختلف قسم کی سروسز پر دی جانے والی چھوٹ کا خاتمہ بھی خاصا اچھا اقدام ہے۔ تاہم بجٹ میں ملکی برآمدات میں اضافہ اور بجٹ خسارہ میں کمی کے حوالے سے مزید عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ اعلانات سے شاید ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکے۔ اس طرح بجٹ میں مجموعی طور پر عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے نکالنے کے لئے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عملی طور پر پاکستان میں مڈل کلاس اور غریب طبقہ مطمئن ہو سکے۔

حقیقت میں پاکستان کی معیشت میں ان دونوں طبقوں کا کلیدی کردار ہے۔ جس کے معاشی مسائل حل کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ PTIحکومت کا ووٹ بینک بھی اس طبقہ سے ہے، ایلیٹ کلاس تو ان کے اقتدار کا ٹریک یا ماحول بننے کے بعد PTIکی سپورٹ کے لئے باہر آئی تھی۔ وزیراعظم عمران خان ضرور سخت اقدامات کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ غریب اور متوسط طبقہ کا خیال کریں۔ موجودہ بجٹ میں ٹیکسوں کی آمدن بڑھانے کے اقدامات عملاً سابق چیئرمین ایف بی آر عبداللہ یوسف کے دور کا دوسرا مرحلہ کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت بھی کئی اصلاحات ایسی ہی تجویز کی گئی تھیں لیکن سیاسی حکومت نے ان پر عملدرآمد میں سست روی دکھائی۔ اب بال وزیراعظم عمران خان کی کورٹ میں ہے کہ وہ یہاں ٹیکس اصلاحات بھارت کے ٹیکس نظام کے ڈھانچہ کا راستہ اپناتے ہوئے کرتے ہیں یا سیاسی حالات کے دبائو میں آکر ماضی کی طرح کسی مصلحت یا دبائو میں تو نہیں آ جاتے۔ بہرحال اب ان کا کسی مصلحت کا شکار ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔ ان اقدامات ہی کے ذریعے ٹیکس چوری روکنے اور قومی محاصل میں اضافہ کے سوا کوئی اور آپشن بھی نہیں نظر آ رہا۔

تازہ ترین