• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے کالم میں ہم نے پاک بھارت کشیدگی پر بحث کی تھی مگر بھارت کی بڑھتی ہوئی مایوسی اور جنگ کی فضا نے مجبور کیا کہ ہم بہت سے نئے پہلو اپنے قارئین کے علم میں لائیں۔ بھارت کے افسران کشمیر میں ایٹمی جنگ کی باتیں کررہے ہیں کہ لوگ وہاں تیاریاں کریں کیونکہ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی جنگ ہوئی تو کشمیر میں ہوگی۔ یہ دیوانے کی بڑتو ہوسکتی ہے اور پاگل پن کی انتہا، مایوسی و نامرادی کی آخری منزل، بھلا کشمیر میں ایٹمی جنگ کیوں ہوگی، پاکستان کا پہلے حملہ کرنے کا ڈاکٹرین پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، نہ جانے وہ کس دور کی بات کررہے ہیں، جنگ ہوئی تو بھارت میں نہ کچھ بچے گا اور نہ پاکستان، میں اس لئے جنگ کو ہوا دینے کے پیچھے بھارت کی مایوسی اور نامرادی کے معاملے کو بھارتی عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کا ایک دھوکہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان اور بھارت کی ایٹمی صلاحیتوں کا تعلق ہے اس میں پاکستان بہت آگے ہے۔ ممکن ہے دس سال بعد وہ اگر اُس کو نیوکلیئر سپلائی گروپ، آسٹریلین ایٹمی گروپ اور ویانا کا تکنیکی دہرے کام میں آنے والے آلات تک رسائی دی تو کہیں جاکر وہ پاکستان کے قریب پہنچ سکے گا۔ ویسے بھی ایٹمی جنگ کی بات کرنا عالمی جرم ہے جس کے زمرے میں بھارت آسکتا ہے اور سپر ایٹمی اداروں کے دروازے بند ہوسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے بھارت کے سابق وزیرمملکت برائے خارجہ اور وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر عمر عبداللہ نے اسے ایک بے وقوفانہ بیان قرار دیا ہے۔ کئی بھارتی کالم نگار بھارت کے اس مبہم شورشرابے کو عوام کی توجہ بھارت میں خواتین کی بے حرمتی اور بے چینی کی طرف سے رخ ہٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت ایسا کیوں کررہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ہم نے بھارت کی وہ مایوسی کو قرار دیا تھا کہ افغانستان کی جنگ میں کئی بلین ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود اُس کو افغانستان میں کردار نہیں ملا۔ جس پر بھارت کے پریس اور دانشور اور سفارت کاروں نے آہ و بکاہ مچائی ہوئی ہے کہ بھارت کو اس جنگ میں کیا ملا۔ پاکستان افغان جنگ میں اپنی حکمت عملی کے سبب کامیابی سے ہمکنار ہوا اور امریکہ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، روس سے تعلقات بہتر کرلئے، اِن تعلقات کو مزید بہتر ہونے سے روکنے کیلئے بھارت کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
دوسری وجہ یہ قرار پاسکتی ہے کہ بھارت کشمیر کے مسئلے کو دبانے میں ناکام رہا۔ اس کی اس سلسلے میں ناکامی نہ صرف امریکہ اور عالمی برادری کا بھارت کا ساتھ نہ دینے کے سبب ہوئی۔ عوام کی تنقید بھارتی حکومت کے خلاف اس وقت انتہا کو پہنچی جب بھارتی دانشوروں اور سفارت کاروں نے یہ دیکھا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دو سال تک غیرمستقل ممبر رہا اور وہ کشمیر کے مسئلے کو دبا نہ سکا۔ یہاں تک کہ وہ اقوام متحدہ کے عالمی مبصرین کو بھی لائن آف کنٹرول سے نہ نکال سکا۔ اپنی ناکامی کا نزلہ وہ اب اس اقوام متحدہ پر ڈال رہا ہے جس کا وہ دو سال تک غیرمستقل ممبر رہا اور اب وہ اقوام متحدہ کی افواج کو نکالنے کی بات کررہا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں پاکستان نے مخلصانہ کوشش کی تو پاکستان آئندہ کے دو برسوں کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ممبر بنانے میں بھارت کا ووٹ لینے میں کامیاب رہا۔ بھارت نے پاکستان کو اگرچہ یورپی یونین مارکیٹ میں بھی ووٹ دیا مگر بنگلہ دیش جو، اب بھارت کا لے پالک ملک بن گیا ہے کے ذریعے ویٹو کرا کر پاکستان کا یورپی یونین میں آزاد تجارت کے لئے راستہ روکا تاہم آج بھی کشمیر کا مسئلہ منہ پھاڑے کھڑا ہے، جس کو پنڈت جواہر لال نہرو خود اقوام متحدہ میں لیکر گئے تھے۔
بھارت کی مایوسی کی تیسری وجہ اُس کی پاکستان کو دبانے اور خطہ کی بالادست قوت بننے میں ناکامی ہوسکتی ہے کیونکہ اس نے امریکہ کا دہشت گردی کی جنگ میں ساتھ دیا مگر پاکستان میں داخلی گڑبڑ کے باوجود وہ پاکستان کو دبانے اور اُس کو ایک کمزور قوت بنانے میں ناکام رہا۔ امریکہ یا روس پاکستان کو اب ناراض نہیں کرسکتے۔ دونوں کے مفادات پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں، پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے۔ نہ امریکہ کو اور نہ ہی بھارت کو ایک دوسرے سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ پوری ہوئیں۔ امریکہ کی معیشت کی بحالی میں بھارت نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ دنیا کے حالات امریکہ کو اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ وہ پاکستان کی اہمیت کو ختم کردے۔ ایک دانشور موسیٰ خان جلال زئی نے لکھا ہے کہ آئی ایس آئی نے امریکہ اور نیٹو کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو افغانستان میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اس لئے بھارت کا پاکستان پرغلبہ حاصل کرنے کا خواب چکناچور ہوگیا۔ چوتھی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بھارت اپنے دفاع پر ضرورت سے زیادہ خرچ کر رہا ہے، وہ ایک اسمارٹ طاقت بننا چاہتا ہے، جنگی سیاسی ڈکشنری میں ایک نئی اصطلاح ہے اس کے مطابق اسمارٹ ملک وہ ہوتا ہے جو اپنے مخالف کو اپنی مرضی کے کام کرنے پر مجبور کردے۔ اُس کا مخالف اتنا خوفزدہ رہے کہ وہ اسمارٹ ملک کی خواہش کو نظرانداز نہ کرسکے۔ بھارت نے امریکہ سے چنیوک طیارے، روس سے بحری بیڑے اور فرانس سے جیٹ طیارے خریدنے کے باوجود اِس مقام پر تاحال نہیں پہنچا کہ وہ پاکستان پر اپنی مرضی مسلط کرسکے یا اُس کو اپنے احکامات کی تعمیل کرانے میں مجبور کردے۔ بھارت کی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ آور ہونے میں ناکام ہونے کے بعد بھارت کے ذریعہ پاکستان کے خلاف مبالغہ آمیز تشہیری مہم چلا کر پاکستان پر دباوٴ ڈالے۔ اسرائیل ایران کو گھیرنے اور اس پر حملہ آور ہونے کی کوشش میں خود گھر گیا اور خود حماس کے حملے کا شکار ہوگیا جس نے کوئی ڈھائی ہزار میزائل اسرائیل پر پھینکے، ممکن ہے کہ اسرائیل نے بھارت کو کئی نئے آلات اور اسلحہ دے دیا ہو جس کے بل بوتے پر وہ طرم خان بننے کی کوشش کر رہا ہے ورنہ تو ایٹمی جنگ کی بات کرنا اُس کو زیب نہیں دیتا اور پاکستان کی طرف صلح جوئی کے لئے ہر طرح کی کوشش کو اِس توہین آمیز طریقے سے رد کرنا ایک جارح قوم کا کام تو ہوسکتا ہے مگر ایک صلح جو پڑوس کا کام نہیں۔ جہاں تک لائن آف کنٹرول کی چھیڑچھاڑ کا معاملہ ہے وہ خود بھارت نے شروع کیا۔ پاکستانی فوجیوں کو اذیت دے کر مارنا یا اُن کے سر کاٹ کر لے جانا اور درجنوں صحافیوں کو دکھانا، جن میں بھارتی مشہور صحافی کرن تھاپر، برکھادت نے ہریجن بویجہ اور درجنوں صحافیوں نے دیکھا کہ ایک پاکستانی فوجی کی سر کٹی لاش کو درخت پر کیلوں سے گاڑا ہوا تھا اور اُس کو پہلے اذیت دیکر مارا گیا اور اس کا بریدہ سر اُن اذیتوں کی داستان بیان کر رہا تھا جس نے ان صحافیوں کے سرشرم سے جھکا دیئے جبکہ میجر جنرل پوری اپنی اس درندگی کو فخر سے بیان کررہے تھے۔ درندگی تیرا کیا کوئی اور نام بھی ہے؟
تازہ ترین