• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
تپتے ہوئے صحرا کے مسافروں کے خشک ہونٹوں کو پانی چاہئے کہ تپش اور آب قلت مار ہی ڈالتی ہے، انسانوں کو سرپر سورج وہ بھی دور نہیں سوا نیزے قریب ہی سمجھو، یہ بھی سمجھو اور جانو کہ شعلوں کا رقص جاری رہتا ہے ہر دم جہاں تپش بھی ہو تشنگی بھی ہو۔ گھنے پیڑ کی چھائوں بھی نہ ہو۔ آرزو بوجھل و ناامیدہو۔ پیاس آس بن جائے۔ سبزہ و ساحل تمنا ناکام بن جائے۔ پھر زندگی مسلسل حادثات کا شکار ہو۔ جہاں غبن بھی ہو، رہزنی بھی ہو، قتل و غارت گری بھی ہو، بوریا بند لاشیں بھی ملتی ہوں۔ جہاں بھوک بھی ہو، پیاس بھی ہو، کچرے کنڈی کا راج بھی ہو، ننگے بدن بچے پیاس بجھانے کی آس میں قطار در قطار ڈول ڈرم کے ساتھ موجود رہیں۔ جن کی تعلیم و تربیت بس پیاس ہو۔ زندگی کا محور سمجھو تو تشنہ لبی ہی ہو۔ زندگی پانی کی امید پہ مسلسل فریب کھاتی رہے۔ کون پیاسوں کے درد کا درماں ہوگا۔ زخمی سے حالات کبھی صحت مند بھی ہو پائیں گے یا نہیں، کیا کراچی پانی کو ترستا ہی رہے گا۔یوں تو یہ روشنیوں کا شہر ہے، صنعتی صوبہ بھی ہے، روزگار کا گڑھ بھی ہے اور تو اور شہر قائد بھی ہے مگر میرے شہر کے لوگ پانی کو ترس رہے ہیں۔ چلتی لو کے اس شہر میں حالات کربلا جیسے ہی ہیں۔ سندھ کے دوسرے علاقے بھی تپتے صحرا کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ شہر ہو یا پسماندہ علاقہ، حالات سبھی کے ایک جیسے ہیں۔ امراء کے گھروں میں پانی کے ٹینک آتے ہیں اس کے باوجود وہ اپنے ٹوائلٹ میں اور غسل خانوں میں کھلا پانی استعمال نہیں کرسکتے۔
کیسا ہے یہ شہر کہ جہاں لوگوں کو بلکہ مومنین کہا جائے کہ جنہیں آب آخرت بھی نصیب نہیں کہ جب لو کے تھپیڑے برداشت نہ کرتے ہوئے بہت سے لوگ گزشتہ برس فوت ہوئے تو انہیں غسل کے لئے پانی نصیب نہ ہوا۔ میتیں ایدھی کے سرد خانوں میں پڑی رہیں کیونکہ ہمارے ملک میں پانی سے منسلک مسائل وہ حالات پیدا کررہے ہیں کہ جہاں مردوں پر عرق گلاب کی آب پاشی ہی کردی جائے۔ خدا نہ کرے کہ کربلا جیسے یزیدی حالات یہاں پیداہوں کہ یزید نے بھی خود کو بے بس ہی پایا تھا، معصومین اور بہادروں کے سامنے بے بس ہوگیا تھا تبھی بس نہ چلا تو پانی بند کردیا مگر ان جواں مردوں نے پیاس پر اسلام کے پیاسے ہونے کو ترجیح دی، دنیاوی بھوک پیاس کربلا میں ہی برداشت ہوسکتی تھی کراچی میں نہیں کہ حالیہ حالات میں یزیدیت یہی ہے کہ غرباء و بے بس انسانوں کی مجبوری سے کھیلنا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے حتیٰ کہ احتجاج بھی تب کرتے ہیں جب ان کے بچے نہانے تو کیا منہ دھونے تو کیا، پینے کے پانی کو ترس جاتے ہیں حالانکہ ایک بڑا سا سمندر ٹھاٹھیں مارتا کراچی کے ساحلوں سے ٹکراتا رہتا ہے مگر وہ پینے کا صاف پانی نہیں بن سکتا اور کراچی کا ہر شہری اس تک رسائی بھی نہیں رکھتا کہ اپنے بچوں کو وہاں نہلانے دھلانے لے آئے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں، شہروں اور علاقوں میں سبزہ بھی ہے، دریا بھی ہیں، جھیلیں بھی ہیں آبشاریں بھی ہیں اور سمندر بھی کسی حد تک ہیں۔ ان پانی سے بھرپور شہروں میں زندگی شدید گرمی میں بھی رواں دواں رہتی ہے۔ مگر کراچی میں سمندر ہونے کے باوجود کربلا سا منظر پیش کرتا ہے بلکہ سندھ کا پسماندہ حصہ بھی جہاں لوگ بچے بوڑھے، جوان اور خواتین تک پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں یعنی پورا سندھ ہی پیاسا ہے ایک تو سندھ پیاسا اس پرچمکتا آگ برساتا سورج۔ ہم لوگوں نے کربلا کے شہیدان کی پیاس کو بھلا دیا حالانکہ مومنین کی شان یہ ہوتی ہے کہ ہمارا اسلام جس قربانی عظیم سے زندہ ہوا اسی محرومی اور قربانیوں کو مدنظر رکھ کر بھوکوں پیاسوں کیلئے ایسا لائحہ عمل تیار کرتے کہ اسلام کے ساتھ ساتھ اسلام کا نام زندہ رکھنے والوں کیلئے صدقہ جاریہ بھی چلتا رہتا۔ بھوک پیاس مذہب سے دور کردیتی ہے۔ کاش اسی قربانی کے پیش نظر کوئی طبقاتی کشمکش نہ ہوتی امیر طبقہ اگر پانی سے اپنی صراحیاں لبریز رکھتا ہے تو غریب طبقہ بھی اپنے گھڑوں میں پانی بھر بھر پیتا اسی مقصد کیلئے بہت سے چھوٹے بڑے ڈیم کی منصوبہ بندی بہت ضروری ہے جو کہ عمل میں آکر نہیں دے رہی۔ غریبوں کو بھی مرتے ہوئے کوئی نہیں دیکھنا چاہتا ہمارے یہاں احساس مرچکا ہے۔ غریب بھوکا پیاس مرتا رہے ہمارے یہاں کسی بھی طبقہ فکر کے لوگوں کو پرواہ نہیں مگر بہت سے طبقات ترقی یافتہ ممالک کے ایسے ہیں جہاں تیسری دنیا سے لےکر افریقہ کے بھوکے پیاسے لوگوں کی فکر کی جاتی ہے۔ ہالی ووڈ کے بہت سے اداکار اور ان کے بچوں کو احساس ہے کہ پسماندہ ممالک میں پینے کا صاف پانی نہیں ہے وہ لوگ وہاں بیٹھ کر احساس کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس پانی کی کمی نہیں وہ اگر چاہیں تو پرواہ نہ کریں حال ہی میں ہالی ووڈ سٹار ول سمتھ کے بچوں نے پیغام دیا کہ ہم غریب ممالک میں صاف پانی مہیا کرنے کی مہم شروع کررہے ہیں جہاں افریقی ممالک میں پینے کا صاف پانی لوگوں تک پہنچ کر پیاس بجھے۔ یہ لوگ وافر مقدار میں پانی ہوتے ہوئے بھی ضائع نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ یورپ میں کسی کیمپ کی جگہ سمر کوٹج جہاں ہوتے ہیں پانی کا نل کھلا رہ گیا تو مقامی یورپیئن نے بڑے ہی نرم لہجے میں کہا کہ ’’آپ لوگ تو پانی ضائع نہیں کرتے اور پانی کی اہمیت آپ لوگوں سے زیادہ کون جانتا ہے۔‘‘ ہم اس کا جواب سن کر حیران ہوگئے اس وجہ سے کہ اس نے ہمیں مسلمان جانا دوسرا یہ کہ کربلائی بھی جانا کہ کربلا کی پیاس اور قربانیوں سے اسلام زندہ ہے اور تیسرا یہ کہ ہمارے ملک میں پانی کا بحران ہے اسی لئے ہماری توجہ ملے جلے واقعات سے مانوس ہوکر جان کر کرائی۔ سنا ہے اہل کراچی عید پربھی پانی کی بوند بوند کو ترستے رہے۔ بچے بڑے سب کین اور گیلن اٹھائے پھرتے رہے۔ یہ محرومی دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ کب یہ مسئلہ حل ہوگا اور کون اس طرف دھیان دے کر بھرپور احتجاج کرے گا۔ عوام کی تو کسی نے سننی نہیں۔
تازہ ترین