• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:روبینہ خان…مانچسٹر
13گھنٹے اور 25منٹ کا ہوائی سفر اور تقریبا ایک ہفتہ ساؤتھ افریقہ میں گزارنے کا موقع ملے تو میں ضرور جاؤں ایسے ملک میں، جہاں آٹھ مئی کو ہونے والے انتخابات میں خواتین وزیروں کی تعداد مرد وزیروں کے برابر ہے۔ ساؤتھ افریقہ جہاں مردوں کے حقوق پامال ہیں وہاں عورتیں بچاری کس کھیت کی مولی رہی ہوگی نیلسن منڈیلا جیسے فائٹر نے کہا تھا ’’میرے ملک میں ہم پہلے جیل جاتے ہیں اور پھر پریزیڈنٹ بن جاتے ہیں‘‘۔کامیابی کےلئے long walk to freedom تو کرنی پڑتی ہے لیکن جدوجہد کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہ ایک شخص کی زندگی ہی کو نہیں بلکہ ایک ملک کی تقدیر کو بدل دیتی ہے۔تبدیلی کا نعرہ ہم نے بھی سنا جو ہمارے ملک میں انصاف لائے گا سب غریب بچے صبح صبح اسکول جائیں گے ۔ مردوزن دن میں کام کریں گے اور رات کو چین کی نیند سوئیں گے کوئی کرپشن نہیں ہوگی بلکہ وہ پیسہ واپس لایا جائے گا اور اس ملک کی ترقی کے لئے عورتیں بھی بھی کام کریں گی ان کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے گا گا افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ صرف عورت کی ظاہری ڈیل ڈول کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور بے دردی سے اس کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ دیا جاتا ہے تو انڈیا میں یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ، سیاست کرنا دوسری شادی کر نے جیسا آسان نہیں ہے۔ انڈیا پاکستان کی چھوڑیے امریکہ میں’’مجسمہ آزادی‘‘ کو 1924 سےقومی یادگار قرار دے دیا گیا تھا وہاں عورتیں جنسی ہراسگی کا شکار ہیں اور ان کو کام کی کم اجرت ملتی ہے ۔2018سے سوشل میڈیا کی تحریک ہیش ٹیگ می ٹو نے ساری دنیا میں عورتوں کی آزادی کے کھوکھلے دعووں کو بے نقاب کردیا گیا ۔ترقی یافتہ دنیا ہو یا گاؤں دیہات کے مرد ہو ہو گھر سے باہر خوش اخلاق بھی ہوں گے لیکن جہاں گھر کے زنان خانے میں داخل ہوئے ان کی کینچلی بدل جاتی ہے بادشاہ وقت ، ہر فن مولا اور بہت بڑی چیز بن جاتے ہیں عورت کی کسی بھی رائے کے جواب میں ،’’تم تو خاموش ہی رہو تو بہتر ہے‘‘ کا جملہ عزت افزائی کے لئے کافی ہوتا ہے ۔واپس آتے ہیں ساؤتھ افریقہ کی جانب جہاں عوام کو چیلنجز کا سامنا ہے ، تقسیم شدہ معاشرہ ہے، وہاں عورتوں کو اہم وزارتوں پر فائز کرنا ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا آج بھی دنیا کئلیے digest کرنا اسان نہیں ہے ۔ادھر ایتھوپیا میں بھی یہی ہو رہا ھے۔ ڈیفنس منسٹر خاتون ہے۔ایتھوپین پرائم منسٹر نے وزارت عورتوں کے حوالے کرنے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’عورتیں مردوں سے کم کرپٹ ہے اور وہ امن اور استحکام پیدا کرنے میں مددگار ہوں گی‘‘۔ ایتھوپیا میں بھی وزیروں کی تعداد کو کم کر دیا گیا ہے جبکہ ساؤتھ افریقہ پارلیمنٹ سے منسٹر کی تعداد کو کم کرکے 36 سے 28 کی کر دی گئی ہے ۔ اپنے ملک پاکستان میں ہم نے سنا تھا کہ وزیروں کی فوج ظفر موج کو کم کیا جائے گا ۔کم کیا ہوتی تعداد بڑھتی جا رہی ہے وزیروں کے ساتھ مشیروں کی بھی چاندی ہو رہی ہے۔ قصہ مختصر کرتی ہوں کہ نئے زمانے میں تو تعلیم یافتہ خواتین موجود ہیں اگر پرانے زمانے کو یاد کریں کہ نانیاں دادیاں پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود اپنے گھر کے بجٹ میں گزارا کرتی تھیں کہ کھانے پینے پر خرچ، بلز کا اندازہ کرنا گھر کی مالی حیثیت کے مطابق نوکر یا مددگار رکھنے کی گنجائش ہے یا نہیں تفریح کے لیے رقم بچتی ہے یا نہیں یہ سب بجٹ کا حصہ ہوتا تھا بڑے پیمانے پر ملکوں میں بھی تو یہی ہوتا ہے تاہم یہ نہ سمجیھے کہ ہر عورت گنی ہوتی ہےدلچسپ سچا واقعہ سنیے ایک خاتون جو بالکل پڑھی لکھی نہیں تھی انہوں نے نوٹوں کی گڈی اپنے بیٹے کو پکڑائی کہ وہ گن کر دے اس نے گنتے ہوئےکچھ نوٹ اپنی جھولی میں گرا دئیےاورباقی گن کر اپنی ماں کوتھما دئیے ۔ماں کےفرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی leakage ہو چکی ہے۔’’شاباش پت‘‘۔ کہہ کر مشکور ھو گی۔تو ایسی بھی خواتین ہیں جو سادہ لوح ہے اور وہ بھی ہیں جو کام جانتیں ہیں اور جن کو ڈلیور کرنا آتا ہے۔ چلو تو سہی ،اعتبار بھی آ ہی جائے گا۔
تازہ ترین