• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ کہ ان کی حکومت نے ’’ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے اور معیشت اب ٹیک آف کیلئے تیار ہے‘‘ اگر درست ہے تو روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے دوچار کروڑوں پاکستانیوں کیلئے یقیناً بڑی خوشخبری ہے۔ وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز اپنی پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے اجلاس میں کیا۔ ان کے بقول ملک کی کل محصولاتی آمدنی کا تقریباً نصف قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جانے کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں تیس فیصد کمی آئی ہے اور تحریک انصاف عوام کے حالاتِ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے پوری طرح پر عزم ہے، اسی بناء پر’’ احساس اور خاتمہ غربت پروگرام‘‘ کا بجٹ تقریباً دگنا کردیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کرپشن کے خاتمے کے عزم کو دہراتے ہوئے بتایا کہ پچھلے دس برس میں بیرونی قرضوں کو چوبیس ہزار ارب تک پہنچا دینے کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے ان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن جلد قائم ہوگا۔ حکومتی مناصب پر فائز رہنے والوں کا محاسبہ اور ان کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات کی تحقیقات کی ضرورت اور اہمیت محتاجِ وضاحت نہیں، قومی وسائل کا ذاتی مفادات کیلئے استعمال فی الحقیقت وطن اور ہم وطنوں سے دشمنی کے مترادف ہے اور جس کے خلاف بھی کرپشن کے الزامات ثابت ہوں اس سے نہ صرف لوٹی ہوئی دولت واپس لی جانا چاہئے بلکہ اسے عبرتناک سزا بھی دی جانا چاہئے تاکہ آئندہ کیلئے ایسی مکروہ سرگرمیوں کا سدباب ہوسکے۔ تاہم اس عمل کو انتقامی کارروائی کے تاثر سے بالکل پاک، مکمل طور پر شفاف اور غیرجانبدارانہ ہونا چاہئے اور مخصوص شخصیات یا طبقات تک محدود رکھے جانے کے بجائے اس کا دائرہ اپوزیشن اور حکومت کے سیاستدانوں سمیت ہر شعبہ زندگی کے افراد تک وسیع ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر اس عمل کا نہ اعتبار قائم ہو سکتا ہے، نہ اس سے وہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں جن کی خاطر اسے شروع کیا گیا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اگر ایسے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ خود وزیراعظم ہوں اور جن کے خلاف تحقیقات کی جائیں وہ حکومت کے مخالف سیاسی رہنما ہوں تو اس عمل کی غیرجانبداری اور اعتبار کس طرح برقرار رکھا جاسکے گا اور اسے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائی قرار دئیے جانے کے دعوئوں کی کس معقول بنیاد پر تردید ممکن ہوگی؟ نیز یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھی جانی چاہئے کہ معیشت کے استحکام کیلئے ملک کا سیاسی خلفشار، بے یقینی، انتشار اور افراتفری کی کیفیت سے پاک ہونا لازمی ہے۔ اسکے بغیر منتخب پارلیمانی ادارے ملک چلانے کا کام کرہی نہیں سکتے۔ بے لاگ احتساب اور پُرسکون سیاسی ماحول دونوں کی بیک وقت موجودگی اسی صورت میں ممکن ہے جب احتسابی ادارے مکمل طور پر خود مختار اور حکومتی مداخلت سے بالکل آزاد ہوں۔ تاہم جہاں تک وزیراعظم کی جانب سے معاشی استحکام کے تازہ دعوے کا تعلق ہے تو اس کی جانب پیش رفت کے کچھ آثار ضرور منظر عام پر دیکھے جارہے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کے قرض کی اصولی منظوری کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اس سلسلے میں گرین سگنل دے دیا ہے۔ اسکا انکشاف گزشتہ روز وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات خسرو بختیار نے ایک پریس کانفرنس میں کیا جس کی توثیق بعد میں وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اپنے ٹویٹر پیغام کے ذریعے کی۔ وزیر خز انہ کے مطابق بینک رعایتی شرح پر تین ارب چالیس کروڑ ڈالر بجٹ سپورٹ کی مد میں پاکستان کو فراہم کریگا جس میں سے دو ارب بیس کروڑ ڈالر نئے مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں فراہم کردیئے جائینگے، یہ رقم زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی کھاتوں کی پوزیشن بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ بلاشبہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے بہتر مستقبل پر عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد ازسر نو مستحکم ہورہا ہے جو معاشی استحکام کے لئے یقیناً نیک فال ہے لیکن اسے حقیقت بنانے کے لئے ملک میں سیاسی استحکام بہرصورت ناگزیر ہے۔

تازہ ترین