• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیرئیر خراب ہونے کا ڈر، پاکستانی بیٹسمینوں نے بڑے شارٹ نہیں کھیلے

کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز کی کرکٹ ورلڈکپ 2019ء کی خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ آج پاکستان جس طرح بھارت سے ہارا اس کی تاویل نہیں دی جا سکتی، پاکستانی ٹیم میں کوئی مسٹری اسپیر نہیں ، میرے کرکٹ کمیٹی سے مستعفی ہونے سے کچھ نہیں ہوگا، کرکٹ ماہرین اور ناقدین بتائیں کس کھلاڑی کی جگہ کس کو لایا جائے،انڈیا کی باؤلنگ بہت بہترین اور ورائٹی والی ہے، ان کے دونوں اسپنرز ورلڈکلاس ہیں۔سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف نے کہا کہ ورلڈکپ میں کھلاڑیوں کو فیملی ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی پاکستانی بیٹسمینوں کو ابتدائی اوورز گزرنے کے بعد چارج کرناچاہئے تھا، انداز جارحانہ نہیں تھا ، پاکستان میں اچھے بیٹسمینوں کے بجائے آنکھ بند کرنے والے کھلاڑی کو ہیرو سمجھا جاتا ہے،فخر زمان کی بیٹنگ میں بڑے بیٹسمینوں والی بات نہیں تھی۔سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق نے کہا کہ پاکستانی بیٹسمینوں کو آؤٹ ہوکر کیریئر خراب ہونے کا ڈر تھا ،شارٹ مارنے سے ڈر رہے تھے،پاکستانی بیٹسمین بیٹنگ میں ابتداء سے ہی نروس نظر آئے۔سابق کرکٹر سکندر بخت نے کہا کہ انضمام الحق ،مکی آرتھر اور شعیب ملک کو قوم سے معافی مانگ کر ریٹائر ہوجانا چاہئے وزیراعظم کہتے ہیں ریلو کٹوں کو نکالے جبکہ ان کے وزیر ہی ریلو کٹوں کی سفارش کررہے ہوتے ہیں۔سینئر اسپورٹس صحافی سید یحییٰ حسینی نے کہا کہ بھارت کی ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں ٹریننگ کرتی نظر آئی جبکہ پاکستانی ٹیم میچ سے ایک دن پہلے شاپنگ کررہی تھی۔ سینئر اسپورٹس صحافی عالیہ رشید نے کہا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہارنا ہی ہے تو نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ کیوں نہیں ہارتی،افغانستان بھی پاکستان کو آسانی سے جیتنے نہیں دے گا۔محمد یوسف نے کہا کہ بھونیشور کمار کے ان فٹ ہونے سے پاکستان کو فائدہ ہوا، آخری دس اوور میں 100رنز بنانا مشکل ہوتا تھا، ورلڈکپ میں شعیب ملک کی سلیکشن نے مجھے ہلادیا ہے، انضمام الحق اتنے بڑے کھلاڑی ہیں سمجھ نہیں آتا کہ انہوں نے شعیب ملک کو کیسے ٹیم میں منتخب کرلیا اور اظہر علی کی ریٹائرمنٹ کیسے ہونے دی، ہم نے اپنے جو ہیرو بنائے وہ آنکھیں بند کر کے سال میں ایک دو مرتبہ ہی کھیلتے ہیں کرکٹ کو صحیح کرنا بڑے کھلاڑیوں کا ہی کام ہے، آسٹریلیا میں رکی پونٹنگ اور جسٹن لینگر اس کی مثال ہیں، ہمیں علاج کمپاؤنڈر سے نہیں سرجن سے ہی کروانا ہوگا، پاکستان اگلے چار میچ جیت جائے تو آگے جاسکتا ہے،ون ڈے ٹورنامنٹس میں کھلاڑیوں کے ساتھ فیملیز کے رہنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے، ٹیم میں دو اسپنرز شامل کیے گئے حالانکہ انڈیا اسپنرز کو بہت اچھا کھیلتا ہے۔ سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق نے کہا کہ پاکستانی بیٹسمین شارٹ مارنے سے ڈر رہے تھے، ان کاخیال تھا اگر آؤٹ ہوگئے تو کیریئر خراب نہ ہوجائے، پاکستان کو ہر اوور میں ایک باؤنڈری لگانا ضروری تھا، فخر زمان کی بیٹنگ میں وہ جارحانہ پن نظر نہیں آیا جس کیلئے وہ مشہور ہیں پاکستان کے پاس ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کا موقع تھا جو ضائع کر دیا،پاکستان پہلے بیٹنگ کر کے 280رنز بھی بنالیتا تو انڈیا کیلئے بڑا مسئلہ ہوتا،پاکستان اگلے تما م میچ جیتتا ہے تب ہی اس کے ٹورنامنٹ میں رہنے کے چانسز ہیں، پاکستان اگر آسٹریلیا کیخلاف جیتا ہوتا تو انڈیا کیخلاف میچ میں باڈی لینگویج مختلف ہوتی، پاکستان کرکٹ ٹیم میں پی ایس ایل کی بنیاد پر کھلاڑی منتخب کیے جاتے ہیں، اگر لومڑی کو شیر کی کھال پہنادی جائے تو وہ شیر نہیں بن جاتی ہے، ہمیں کرکٹ ٹیم میں سلیکشن کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کا نیوزی لینڈ کے ساتھ بنگلہ دیش اور افغانستان کے ساتھ میچ بھی ہلکا نہیں ہوگا، شاداب خان، عماد وسیم اور حسن علی ورلڈکلاس کھلاڑی نہیں ہیں، انہیں جتنی کرکٹ آتی ہے اتنا ہی کھیل سکتے ہیں۔سابق کرکٹر سکندر بخت نے کہا کہ پاکستان نے 12,14 اوورز مسلسل اسپن باؤلرز سے کرائے جو اچھی حکمت عملی نہیں تھی، عماد وسیم اور شاداب خان کا اسپل بہت لمبا ہوگیا تھا، اس کے برعکس انڈیا نے ایک اسپنر اور ایک سیمر کے ساتھ باؤلنگ کی، فخر زمان جب بھی چلتا ہے تو لمبا اسکور ہی کرتا ہے بڑا کھلاڑی ضرری نہیں بڑا سلیکٹر اور بڑا کوچ بھی ہو، پاکستان سیمی فائنل کوالیفائی نہ کرے تو ہی اچھا ہے، اگر یہ سیمی فائنل تک پہنچ گئے تو یہ چیف سلیکٹر، کوچ، بولنگ کوچ، کپتان تمام کھلاڑی ہمارے سروں پر رہیں گے شعیب ملک نے اگلے کسی میچ میں 70, 80رنز کیے تو پھر وہ سارے وزراء آکر کھڑے ہو جائیں گے جن سے وہ سفارشیں کرواتے ہیں، ہماری انفارمیشن منسٹر سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ رہی تھیں کہ کیا حسن علی کو کھیلنا چاہئے تھا، میں وہاں ہوتا تو ان سے پوچھتا کیا شعیب ملک کو کھیلنا چاہئے تھا؟ وہاں بیٹھے سب کرکٹ ایکسپرٹ اور کھلاڑی خاموش رہے کیونکہ وہ سب وہاں اپنی تنخواہوں کی وجہ سے بیٹھے ہیں وزیراعظم کہتے تھے مفادات کا تصادم نہیں ہونا چاہئے، وزیراعظم نے یہ نہیں دیکھا کہ ایک سلیکٹر کا بھتیجا اور گورننگ بورڈ کے ممبر کا بیٹا ٹیم میں کھیل رہا ہے، آئندہ کوئی ایسا سلیکٹر نہیں بننا چاہئے جس کا بھتیجا، بھانجا یا بیٹا کھیل رہا ہو، قومی ٹیم کے سلیکٹر کو کسی فرنچائز کا سلیکٹر نہیں ہونا چاہئے، ہم آٹھ مہینے میں تین دفعہ بھارت سے ہار گئے ہیں، جب سے نیا پاکستان بنا ہے ہم بھارت کو ہرا نہیں پارہے ہیں، پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے انگلینڈ سے لوگ امپورٹ کیے گئے جو ہماری کرکٹ تبدیل کرنے والے ہیں۔ سینئر اسپورٹس صحافی سید یحییٰ حسینی نے کہا کہ ہماری ٹیم کے پاس کوئی گیم پلان نہیں تھا،کھلاڑی خالی الذہن نظر آئے، کپتان اتنا بزدل ہے کہ شارٹ کھیلنے کے بجائے سنگل لیتا نظر آیا، انڈین ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں ٹریننگ کرتی نظر آئی جبکہ پاکستانی ٹیم میچ سے ایک دن پہلے شاپنگ کر رہی تھی،انڈیا کے میچ سے پہلے کل رات تک کھلاڑیوں کی یہ بحث چل رہی تھی کہ مجھے صرف چار ٹکٹس کیوں دیئے گئے، میری بیگم کا ٹکٹ نہیں ملا اور میرے بچے میچ دیکھنے نہیں جائیں گے۔یحییٰ حسینی نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کا ڈومیسٹک ڈھانچہ خراب ہے، پاکستان چیمپئنز ٹرافی، 2009آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور 1992ء کا ورلڈ کپ اسی سسٹم میں رہ کر جیتا ہے، انضمام الحق نے جو ٹیم منتخب کی تھی اسے روتے ہوئے ہی آنا تھا، پاکستان اپنے اگلے چار میچ بھی جیت لے تب بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہے ورلڈکپ ٹیم میں احمد شہزاد، فہیم اشرف اور عمر اکمل کو ہونا چاہئے تھا، کوئٹہ کے پی ایس ایل چیمپئن بننے میں عمر اکمل اور احمد شہزاد کا بڑا کردار تھا، انضمام الحق کو امام الحق کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ عالیہ رشید نے کہا کہ عبدالحفیظ اور شعیب ملک نے ہمیں میچز نہیں جتوانے کیوں ان پر انحصار کیا ہوا ہے، اگلے میچوں میں فخر زمان اور شعیب ملک کو نہیں کھلانا چاہئے، کرکٹ ٹیم کا بڑا مسئلہ اسٹرائیک ریٹ آرہا ہے، امام الحق کا فٹ ورک نظر نہیں آیا سیدھی بال کو لیگ سائڈ پر کھیل کر آؤٹ ہوگئے، موجودہ پاکستانی ٹیم اور موجودہ انڈین ٹیم میں بہت زیادہ فرق ہے۔سابق ٹیسٹ کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ پانچ باؤلرز اس وقت کھلائے جاتے ہیں جب آپ کو اسکور کا دفاع کرنا ہو، پاکستان کوانڈیا کیخلاف میچ میں پہلے بیٹنگ کرنی چاہئے تھی، روہت شرما اور راہول نے آرام سے نئی گیند کھیلی اس کے بعد حسن علی نے انہیں سیٹ کرادیا پاکستان بورڈ کی کرکٹ کمیٹی کا رکن ہوں مگر ہماری آخری میٹنگ دو تین مہینے پہلے ہوئی تھی اس کے بعد ہم سے کچھ نہیں پوچھا گیا،انہوں نے مڈل اوور میں پاکستان کو تنگ کیا، پاکستان میں اس وقت کوئی مسٹری اسپنر نہیں ہے، اب آپ کسی بھی کھلاڑی کو تبدیل کریں کوئی فرق نہیں پڑے گا، انڈیا آئی پی ایل سے ملنے والا بہت زیادہ پیسہ اپنی فرسٹ کلاس کرکٹ میں لگاتا ہے، پاکستان میں ہر سال ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام تبدیل کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین