• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حنیف راجہ…گلاسگو
گزشتہ70سال سے ہم صرف بلاامتیاز احتساب کا نعرہ ہی سنتے چلے آرہے ہیں لیکن اب پاکستان میں پہلی بار ایک غیر جانبدارانہ احتساب کی امید پیدا ہوئی ہے، جس میں دونوں بڑی پارٹیوں کے بڑے بڑے لیڈروں کے علاوہ حکمران جماعت کے افراد بھی گرفت میں آنا شروع ہوگئے ہیں، تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف سابق صدر زرداری، فریال تالپور، شہبازشریف، حمزہ شہباز اور پنجاب کے وزیر جنگلات سبطین خان کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، اس احتساب کو پُراعتماد بنانے اور اپوزیشن کے اس پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے کہ یہ احتساب نہیں سیاسی انتقام ہے، حکمران جماعت کے وہ افراد جو نیب کو مطلوب ہیں، چاہے وہ پرویز خٹک ہوں یا علیم خان، زلفی بخاری ہوں یا کوئی بھی اور سب ہی کے یکساں معیار مقرر کیا جائے اور پھر اگلے مرحلے میں ایسے تمام اداروں کے افراد کو بھی شامل کیا جائے جن کے متعلق عام تاثر ہے کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا، ان میں جج اور جرنیل دونوں شامل ہیں، جنرل راحیل شریف نے فوج میں اعلیٰ افسران کے احتساب کا آغاز کیا تھا، اس سلسلہ کو جاری رہنا چاہیے، نیز احتساب کے اس دائرہ کار کو آزاد کشمیر تک بڑھایا جائے، جہاں ماضی میں صدر اور وزیراعظم بننے کے لیے بولیاں لگائی جاتی رہی ہیں، اگر موجودہ احتساب بھی سلیکٹڈ رہا تو تاریخ اس کو بھی ایوب خان کے ایبڈوسے لے کر اب تک ہونے والے تمام احتسابوں کی طرح صرف انتقام کا نام دے گی، اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ تم سے پہلی قومیں اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ وہ کمزوروں کو تو سزا دیتے تھے لیکن طاقتوروں کو چھوڑ دیتے تھے، اور مزید فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا، ریاست مدینہ تب ہی قائم ہوگی، اگر ہم والی مدینہ کے اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنائیں گے، عمران خان کے جس نعرے پر پوری قوم نے لبیک کہا تھا، وہ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ تھا، اگر وہ پاکستان کو ایک کرپشن فری ملک بنا دیتے ہیں تو ان کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا، ریاستی ڈھانچے میں احتساب کا ایک ایسا خودکار شفاف نظام ہونا چاہیے کہ کوئی بھی ملزم چاہے وہ عام شہری ہو، بیورو کریٹ یا سیاستدان جج ہو یا جنرل، کرپشن کرے تو قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکے۔ آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے، مہذب دنیا میں اگر کوئی لیڈر یا بڑا آدمی کرپشن میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ شرمندہ ہوتا اور قوم سے معافی مانگتا ہے، ہر طرف سے اس پر لعنت، ملامت ہوتی ہے، لیکن پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے، جہاں کسی لیڈر کے کرپشن ے الزام میں گرفتار ہونے پر ان کے چیلے چانٹے اپنے لیڈروں سے متنفر ہونے کے بجائے ان کی حمایت میں نہ صرف اخبارات میں بیان بازی کرتے ہیں، بلکہ سڑکوں پر آکر ان کی حمایت میں مظاہرے اور نعرے بازی بھی کرتے ہیں، عرصہ دراز سے پاکستان کی سیاست پر دو بڑی پارٹیوں سے کنٹرول حاصل کر رکھا ہے، یہ لوگ باریاں لگاکر ملک کو لوٹتے رہے ہیں اور لوٹی ہوئی رقم ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کردی، آج ملک کو جس مالی بحران کا سامنا ہے اس کے ذمہ دار حکمران طبقے کے ہی افراد ہیں، ان کی کرپشن کی وجہ سے پاکستان کی قومی سلامتی، آزادی اور خودمختاری کے لیے سنگین خطرات پیدا ہوگئے ہیں، ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے پاس کشکول لے کر جان پر مجبور ہوئے ہیں اور پھر وہ اپنی شرائط پر ہمیں بلیک میل کررہے ہیں، ان کرپٹ افراد سے ایک ایک پائی وصول کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلہ میں نیا فنانس بل بھی اہمیت کا حامل ہے، جس میں آف شور غیر ظاہر کردہ اثاثوں کے متعلق اقدامات کیے جارہے ہیں اور جرم ثابت ہونے پر7سال قید اور چوری شدہ ٹیکس کے2سو فیصد کے برابر جرمانہ ہوگا۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، چاروں موسم، سمندر، دریا، پہاڑ، معدنیات بے پناہ ذہین، محنتی اور ایسی نوجوان افرادی قوت جس کی تعداد تقریباً ساٹھ فیصد ہے، اگر ہم اپنے وسائل کا صحیح استعمال کریں تو چند ہی سالوں میں نہ صرف پاکستان کے تمام قرضے ادا کرسکتے ہیں، بلکہ ایشیا کے معاشی ٹائیگر اور دنیا کا ایک اہم ملک بن سکتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ملک کو پوری بے دردی سے لوٹا۔ ان کا پروٹوکول ملکہ برطانیہ سے بھی زیادہ کا رہا ہے۔ خود ان حکمرانوں کے بچے بیرون ملک اعلیٰ ترین اداروں میں پڑھتے ہیں اور یہ خود علاج کرانے کیلئے بیرون ملک جاتے ہیں، یہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا تعلیمی ادارہ کیوں نہیں قائم کرسکے، جہاں ان کے بچے تعلیم حاصل کریں اور یہ اپنا علاج بھی ملک میں ہی کروائیں۔ پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور لاکھوں افراد ہر سال صرف صاف پانی نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ان لوگوں کے قاتل بالواسطہ ہی حکمران ہیں، اس وقت احتساب کا بہترین موقع ہے اور اس عمل کو پوری قوت کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے اگر اس سلسلہ میں کوئی این آر اوکیا گیا یا احتساب کے شفاف عمل کو روکا گیا تو یہ پاکستان اس کے غریب عوام سے سنگین غداری ہوگی اور اس طرح کے احتساب کا پھر شاید عرصے تک موقع نہ مل سکے۔
تازہ ترین