• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست، معیشت اور امن و سلامتی کسی بھی ملک کے استحکام کے بنیادی پیمانے ہیں اگر یہ مستحکم ہیں تو ملک بھی مستحکم ہے، اگر رعایا ان کے متعلق بے یقینی میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک سیاسی افراتفری کا شکار ہے، گڈ گورننس کا فقدان ہے، معیشت بدحالی سے دو چار ہے اور امن و امان خدشات کی زد میں ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو صورتحال ہے وہ تینوں اعتبار سے لمحہ فکریہ ہے۔ سیاسی محاذ آرائی زوروں پر ہے، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے تقریباً حالت جنگ میں ہیں، اسمبلیاں قانون سازی کی بجائے سیاسی زور آزمائی کے اکھاڑوںکا منظر پیش کر رہی ہیں، معیشت لڑ کھڑا رہی ہے، بیرونی قرضوں کا بوجھ پہلے ہی بہت تھا انہیں اتارنے کے لئے یہ بوجھ مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ حکومت بے شک نیک نیتی سے معاشی بحران حل کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے اور وزیراعظم کا یہ بیان نہایت امید افزا ہے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے بچا لیا گیا ہے اور معیشت اب ٹیک آف کے لئے تیار ہے۔ توقع ہے کہ آگے چل کر حکومت کی یہ کوششیں بار آور ثابت ہوں اور حالات یکسر بدل جائیں لیکن اس کے کیے گئےاقدامات کی بدولت لوگوں کو فی الحال معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر نے ملکی کرنسی کو بے حال کر دیا ہے، مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا حکومتی زعما بھی اعتراف کر رہے ہیں۔ کوئی جواز ہو یا نہ ہو آٹے، چاول، چینی، دال، سبزی، گوشت اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیا کے نرخ فزوں تر ہو رہے ہیں۔ پٹرول، ڈیزل، مٹی کا تیل، گیس و بجلی کے مہنگا ہونے سے نان بائیوں کا تعلق بنتا ہو یا نہیں انہوں نے بھی روٹی نان پراٹھے وغیرہ کی قیمتوں میں یہ کہہ کر اضافہ کر دیا ہے کہ آٹا اور میدہ مہنگا ہونے کے علاوہ ان چیزوں کے نرخ بڑھنے سے بھی ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ مشیرِ خزنہ حفیظ شیخ کہتے ہیں کہ معاشی ایجنڈا پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے اور وفاقی بجٹ میں پرانے ٹیکسوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے ایسے فیصلے کئے بھی گئے ہیں۔ اب بجٹ تجاویز منظور کرانا ایک دشوار مرحلہ ہو گا۔ حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ ہم عددی اکثریت کے بل بوتے پر پارلیمنٹ سے فنانس بل منظور کرا لیں گے لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نےعلانیہ عزم کا اظہار کیا ہے کہ بجٹ عوام دشمن ہے اسے منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا خیال ہے کہ بجٹ کی منظوری کے لئے حکومت کو ایمرجنسی نافذ کرنا پڑے گی۔ جماعت اسلامی نے بجٹ کے پس منظر میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مہم چلا دی ہے اور مظاہرے کئے ہیں۔ حکومت کو بھی معاشی ابتری کا احساس ہے، اس نے معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اقتصادی سلامتی کونسل بنائی جا رہی ہے۔ جہاں تک امن و سلامتی کے معاملات کا تعلق ہے تو بلاشبہ مسلح افواج نے قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر دہشت گردی کو شکست دے دی ہے اور بدامنی والے علاقوں میں امن قائم کیا ہے مگر ملک دشمن عناصر موقع پا کر اکا دکا وارداتیں اب بھی کر رہے ہیں۔ انہیں بیرونی قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ ملکی سرحدیں مسلح افواج نے محفوظ بنا رکھی ہیں گویا ملکی استحکام کے لئے ابھی سیاست، معیشت اور امن و امان کے مسائل حل کرنے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اور سیاسی قیادت کو سنجیدگی سےسوچنا چاہئے کہ ان حالات میں ہمارے اگلے دس سال کیسے ہوں گے؟ کیا ہم درست سمت میں جا رہے ہیں؟ اور اگر جا رہے ہیں تو اس کے نتائج کب تک سامنے آئیں گے؟ اور اگر کہیں کوئی غلطی ہے تو اسے کیسے درست کیا جا سکتا ہے؟ سمت کیسے درست کی جا سکتی ہے؟ پرانی سیاسی قیادت منظر سے غائب ہو گئی تو اس کا متبادل کیا ہو گا؟ کیا پی ٹی آئی قیادت ملک کو اکیلے سنبھال لے گی؟ اس طرح کے معاملات پر اچھی طرح سوچنا چاہئے اور پھر آگے بڑھنا چاہئے۔ملک کو استحکام کے راستے پر ڈالنے کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔

تازہ ترین