• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنگین سیاسی معاشی عالمی صورتحال کے باعث حالیہ تقرری موضوع بحث

انصار عباسی

اسلام آباد :… سیاسی منظر نامے پر بہت کچھ ہو رہا ہے، نظریں سپریم جوڈیشل کونسل پر ہیں جو فی الوقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اس ریفرنس کی سماعت کر رہی ہے جو صدر مملکت نے دائر کیا ہے، کچھ حلقوں میں وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی حالیہ بھرتیوں پر بھی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے لیکن جو بات ملک میں کئی لوگوں اور حکومت کی قسمت کا فیصلہ کرے گی وہ ہے معیشت۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اہم شخصیت نے چند ماہ قبل اپنی رہائش گاہ پر نون لیگ کے تین سینئر رہنمائوں سے ملاقات کی۔ بات چیت کا موضوع ملکی معیشت تھا اور اہم شخصیت کو خبردار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت معاشی بحران کو مزید خراب کر دے گی اور یہ صورتحال معاشی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ بعد میں، وزیراعظم نے اپنی معاشی ٹیم میں بڑی تبدیلیاں کیں لیکن معاشی اشاریے بدستور کئی لوگوں کیلئے مایوسی کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جس طرح نون لیگ کے رہنمائوں نے اہم شخصیت کو خبردار کیا تھا بظاہر آج ویسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کو ناگزیر ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا ہے اور مشکل مرحلہ نکل چکا ہے، لیکن معاشی اشاریے اور سرکاری رپورٹس اور ساتھ ہی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مسلسل گرتی قدر وزیراعظم کے دعوے سے میل نہیں کھاتی۔ وزیراعظم کے بیان سے بالکل الٹ، حکومت نے اب ’’معاشی سلامتی کونسل‘‘ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ملک کی بگڑتی معاشی صورتحال کو خصوصاً ایسے منظر نامے میں بہتر بنایا جا سکے جہاں بین الاقوامی طاقتوں نے کھل کر اپنی گندیں چالیں چلنا شروع کر دیا ہے تاکہ پاکستان معاشی طور پر ناکام ہو جائے۔ دی نیوز میں پیر کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، معاشی کونسل کے سربراہ وزیراعظم ہونگے جبکہ آرمی چیف اور سیکریٹری خزانہ ارکان میں شامل ہوں گے۔ کونسل میں تین مزید ارکان بھی شامل کیے جائیں گے۔ ملک میں بگڑتی معاشی صورتحال اور واحد اسلامی نیوکلیئر ملک کی مالی مشکلات بڑھانے کیلئے ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف اور دیگر تنظیموں کے ذریعے بین الاقوامی طاقتوں کی چال بازیوں کے مقابلے کیلئے ملک میں متفقہ حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ دو دن قبل، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ پاکستان کیلئے چینی قرضہ جات کی ادائیگی کیلئے آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کی کوئی منطق نہیں، کسی غلط فہمی میں نہ رہیے گا کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کیا کر رہا ہے۔ اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ آئی ایم ایف کے ٹیکس ڈالرز اور آئی ایم ایف فنڈنگ کا حصہ سمجھے جانے والے امریکی ڈالرز کے ذریعے چائنیز بانڈ ہولڈرز یا چین کی مدد کی مدد کی جائے۔ پاکستان کیلئے اسی طرح کی ایک اور صورتحال دیکھیں تو ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے اتوار کو پاکستانی حکومت کے اس بیان سے خود کو دور کرلیا کہ بینک پاکستان کو 3.4؍ ارب ڈالرز کی بجٹ معاونت فراہم کرے گا۔ ہفتے کو حخومت کے دو سینئر عہدیداروں، حفیظ شیخ اور پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے وزیر خسرو بختیار، نے اعلان کیا تھا کہ اے ڈی بی پاکستان کو بجٹ سپورٹ کی مد میں 3.4؍ ارب ڈالرز دے گا تاکہ معاشی اصلاحات اور استحکام کیلئے کام کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی حکومت کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے حالانکہ وزیراعظم عمران خان اپنی معاشی ٹیم کے اہم شخص اسد عمر کو تبدیل بھی کر چکے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اب جبکہ وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ معاشی صورتحال خطرے سے باہر ہے، ان کی حکومت کی دو وزارتوں نے آئندہ مالی سال کیلئے یکسر مختلف اعداد و شمار پیش کیے ہیں جنہیں دیکھ کر صورتحال واضح ہونے کی بجائے دھندلا چکی ہے۔ یہ بات کئی لوگوں کیلئے باعث حیرت ہوگی کہ وزارت پلاننگ نے جی ڈی پی کی افزائش 4؍ فیصد جبکہ وزارت خزانہ نے 2.4؍ فیصد پر دکھائی ہے۔ دونوں کے اعداد و شمار میں بہت بڑا فرق ہے۔ اسی طرح مہنگائی کے حوالے سے وزارت پلاننگ نے پیشگوئی کی ہے کہ آئندہ مالی سال کیلئے مہنگائی کی شرح 8.5؍ فیصد رہے گی جبکہ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ 11؍ سے 13؍ فیصد کے درمیان رہے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں دستاویزات کیلئے وزیراعظم نے ہی منظوری دی ہے۔ جون 2018ء کے آخر تک شرح نمو 5.8؍ فیصد تھی اور توقع تھی کہ یہ جون 2019ء تک 6.2؍ فیصد ہوگی لیکن وزارت خزانہ کے مطابق اب یہ 2.4؍ فیصد رہے گی۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی 313؍ ارب ڈالرز سے کم ہو کر 280؍ ارب ڈالرز ہوگئی ہے۔ یہ بہت بڑی کمی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی فی کس آمدنی 8؍ فیصد سے بھی زیادہ کم ہوئی ہے۔ ڈر ہے کہ تنزلی کے یہ رجحان آئندہ دو سے تین سال تک جاری رہے گا۔ گزشتہ سال مہنگائی کی شرح 3.9؍ فیصد تھی اور اس سال توقع ہے کہ یہ 7.5؍ فیصد کے قریب رہے گی۔ وزارت خزانہ کے مطابق، آئندہ سال مہنگائی کی شرح 11؍ سے 13؍ فیصد رہے گی۔ کہا جاتا ہے کہ صرف 10؍ ماہ کے قلیل وقت میں 40؍ لاکھ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں۔ توقع ہے کہ مزید 50؍ لاکھ افراد آئندہ سال غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے اور یہ رجحان 2022ء تک جاری رہے گا۔ کم شرح نمو اور مہنگائی کا ایک بہت بڑا نتیجہ بیروزگاری بھی ہے۔ اب تک موجودہ حکومت کے دور میں کہا جاتا ہے کہ 12؍ لاکھ سے زائد افراد کی ملازمتیں جا چکی ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق بیروزگاری کا عمل آئندہ چند سال تک جاری رہے گا اور کاروبار کیلئے خراب ماحول، بھاری شرح سود وغیرہ کی وجہ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہوں گے۔ جون 2018ء تک ملک کے قرضہ جات اور واجبات 30؍ ہزار ارب روپے تھے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 9؍ ماہ کے دوران یہ قرضہ جات بڑھ کر تقریباً 35؍ ہزار ارب روپے ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پانچ سال میں 14؍ ہزار ارب روپے سے بڑھنا شروع ہوئے - مجموعی طور پر 11؍ ہزار ارب روپے تھے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے قرضہ لینے کا رجحان ماضی کی کسی بھی حکومت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ 15؍ سال کے سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے تحت رواں مالی سال اب تک ٹیکس جمع کرنے کے معاملے میں بدتر ثابت ہوا ہے۔ جنرل مشرف کے مارشل لاء اور جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت تھیں، جنہیں پی ٹی آئی انتہائی کرپٹ قرار دیتی ہے، اس وقت ٹیکس جمع کرنے کا رجحان موجودہ حکومت کے ابتدائی 10؍ ماہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر تھا۔ رواں مالی سال میں آمدنی کی شرح 3؍ فیصد سے بھی کم رہی ہے لیکن گزشتہ 15؍ سال کے دوران یہ شرح بہت اچھی تھی یہ وہ دور تھا (پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومت) جب ان جماعتوں کی حکمرانی تھی جنہیں پی ٹی آئی چور اور کرپٹ کہتی تھی۔ سرکاری ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ 2003-04ء میں ایف بی آر کی جانب سے جمع کی گئی آمدنی 510.6؍ ارب روپے تھی۔ 2017-18ء تک یہ رقم 2993؍ ارب روپے تک جا پہنچی۔ رواں مالی سال کا ہدف 4398؍ ارب روپے تھا لیکن اپریل کے آخر تک یعنی موجودہ حکومت کے ابتدائی 10؍ ماہ میں ایف بی آر صرف 2993؍ ارب روپے جمع کر پایا۔ ایف بی آر کو رواں مالی سال کے جولائی تا اپریل کے سیشن میں 3337.7؍ ارب روپے جمع کرنا تھے۔ نون لیگ کی گزشتہ حکومت میں ٹیکس سے آمدنی 1900؍ ارب روپے سے بڑھ کر 3800؍ ارب روپے ہوگئی تھی۔ پانچ میں سے چار سال کے دوران ٹیکس سے آمدنی میں سالانہ 20 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ایک سال میں سست ترین اضافہ بھی 13؍ فیصد تھا۔ یہ سب کچھ رقپے کی قدر میں بھاری کمی اور مہنگائی کے باوجود ہوا، یہ وہ دو پہلو ہیں جو ماہرین کے مطابق ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت میں یہ پہلو بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ اب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت، بجٹ میں آمدنی میں 36؍ فیصد اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جو ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس رقم کا 70؍ فیصد حصہ بالواسطہ (اِن ڈائریکٹ) ٹیکسوں کے ذریعے جمع کیا جائے گا جس سے غریب اور ساتھ ہی متوسط طبقہ زیادہ متاثر ہوگا۔ ٹیکس کے ذریعے رقم جمع کرنے میں زبردست کمی کا تعلق عموماً سست رفتار معیشت سے جوڑا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے بعد پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کےبعد سے کاروباری افراد اور سرمایہ کار سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری ریکارڈ 157؍ روپے تک جا پہنچی ہے۔ ایسی معاشی صورتحال میں، زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف جو بات ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو میثاق معیشت کے متعلق معاہدہ کرنے کی پیشکش کر رہی ہے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی دن بہ دن بدتر ہوتی جا رہی ہے اور سیاسی جماعتیں سڑکوں اور گلیوں میں دھرنے اور کشیدگی پیدا کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کو اقتدار سے نکال باہر کیا جا سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاسی بے یقینی پہلے کم نہیں تھی جو اب پی ٹی آئی حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ اس اقدام نے وکلاء برادری کو ناراض کر دیا ہے لیکن اس برادری میں کچھ ایسے بھی ہیں جو دھرنوں مظاہروں کے حق میں نہیں اور چاہتے ہیں کہ جوڈیشل کونسل مسئلہ حل کرے۔ معاملہ کونسل میں زیر التوا ہے۔ کچھ دن قبل اٹارنی جنرل کی سپریم جوڈیشل کونسل میں پیشی سے قبل تک سرکاری ذرائع کچھ زیادہ پراعتماد نظر نہیں آ رہے تھے لیکن اب پر اعتماد نظر آ رہے ہیں۔ تاہم، ان سرکاری ذرائع کو کوئی پریشانی نہیں کہ حکومت کس طرح ملک کے معاشی بگاڑ میں حصہ ڈال رہی ہے۔

تازہ ترین