• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے پڑھنے والوں سے دو ہفتوں سے بھی زیادہ دوری بہت تکلیف دہ رہی جبکہ اس دوران وطن عزیز کو علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ جیسے سونامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ میری بیس بائیس دنوں کی اس گمشدگی کی وجہ یہ ہے کہ میرے کوہلے کی ہڈی ٹوٹ گئی جس کی جگہ نئی مصنوعی ہڈی ڈالی گئی ہے۔ سہارے کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل تو ہو گیا ہوں مگر زیادہ دیر تک بیٹھ نہیں سکتا۔
یہ حادثہ ہندوستانی پنجاب کے شہر امرتسر میں پیش آیا جہاں میں اپنے ساتھی پاکستانی اخبار نویسوں کے ہمراہ سارک معاہدے کی سالگرہ کی تقریبات میں شریک ہونے گیا تھا۔ ان تقریبات کا آغاز چھ جنوری کو امرتسر میں وزیر اعلیٰ مشرقی پنجاب کی زیر صدارت ہوا اور اختتام 9 جنوری کو لاہور میں وزیر اعظم پاکستان کی زیر صدارت تقریب میں ہوا۔
امرتسر کے ہوٹل کے صحن سے گزرتے وقت مجھے ہمرنگ فرش کا ایک سٹیپ (Step) دکھائی نہیں دیا اور وہاں پاؤں دھرنے سے ایک لمحہ پہلے نجم سیٹھی پوچھ رہے تھے کہ اب تمہاری صحت کیسی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ”صحت خراب ہونے سے ایک لمحہ پہلے تک ٹھیک ہی ہوتی ہے“ اس کے ساتھ ہی میں وہاں سے لڑھک کر پیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا۔ پتہ چل گیا کہ اندر کچھ ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے اور سر پر ایک بڑا سا آلو ابھر آیا ہے۔
میرے ساتھی کچھ لوگوں کی مدد سے مجھے وہاں سے اٹھا کر سیدھے وہاں کے ایک مشہور آرتھوپیڈک ہسپتال میں لے گئے جہاں ایکسرے نے بتایا کہ میرے کوہلے کی قدرتی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا کہ 79سال کی عمر میں ہڈی کی مرمت نہیں ہو سکتی اسے تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ تبدیلی کے اس عمل میں ایک ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے ۔ امرتسر کے ہسپتال نے اس تبدیلی کی مفت پیش کش کی مگر اس دوران اس حادثے کی خبر پاکستان پہنچ چکی تھی اور حکومت پنجاب کے میڈیا مشیر شعیب بن عزیز وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو بتا چکے تھے۔ انہوں نے ٹیلی فون کے ذریعے مشورہ دیا کہ میں علاج کے لئے وطن واپس آجاؤں۔ وہ شعیب بن عزیز کو مجھے لینے کے لئے واہگہ بھیج رہے ہیں۔ اگلے روز چھ جنوری کو امرتسر کے ہسپتال والوں نے مجھے ایک آرام دہ ایمبولنس کے ذریعے اپنے ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف کے ساتھ واہگہ بھیج دیا۔ نجم سیٹھی اور عمل سرفراز بھی میرے ہمراہ واپس لاہور آ گئے۔ واہگہ میں شعیب بن عزیز 1122 کی ایمبولنس کے ساتھ میرا انتظار کر رہے تھے اور تقریباً گیارہ بجے ہم میوہسپتال لاہور کے اے وی ایچ میں پہنچ چکے تھے جہاں معروف آرتھو پیڈک سرجن قاضی سعید نے آٹھ جنوری کی صبح کو میرے کوہلے کی ہڈی کی ”ری پلیس منٹ“ کا آپریشن صرف نصف گھنٹے میں صرف محدود بے حسی کے ٹیکے کے ساتھ کیا اور اگلی صبح مجھے بستر سے اٹھا کر بٹھا دیا۔ میرے مہربان دوست اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے میڈیا ایڈوائزر شعیب بن عزیز واہگہ سے میوہسپتال تک کے سفر کے دوران جہاں حکومت پنجاب کے تعمیری اور ترقیاتی منصوبوں پر رواں تبصرہ کرتے رہے وہاں انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا کہ بے پایاں ذہنی صلاحیت رکھنے والے یہ معلوم کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں کہ بعض محدود ذہنی صلاحیت والے لوگ شہرت کیسے حاصل کر لیتے ہیں؟ حالانکہ یہ کامن سینس کی بات ہے کہ شہرت محض ذہنی اور دماغی صلاحیت کی محتاج نہیں ہوتی اور کامن سینس بھی کچھ زیادہ کامن نہیں ہوتی خاص طور پر بے پایاں ذہنی صلاحیت والے لوگوں کے لئے۔
تازہ ترین