• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثنا اکبر، آئی بی اے، کراچی

اِن دنوں خواتین کی ایک بڑی تعداد بچّوں کی تعلیم اور دیگر گھریلو اخراجات پور ے کرنے کے لیے ملازمت کر رہی ہے، تو لڑکیوں میں پڑھنے کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ سو، خواتین کو دفاتر یا تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے روز ہی گھروں سے نکلنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف، کراچی میں خواتین کے لیے مناسب سفری سہولتیں تو ایک طرف رہیں، وہ بنیادی سفری سہولتوں تک سے محروم ہیں۔اس لیے ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کو آمد ورفت کے دَوران جس ذہنی اذیت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ باشعور شہریوں سے مخفی نہیں۔ ایک تو شہر میں بسز کی تعداد ضرورت سے انتہائی کم ہے اور جو ہیں، اُن میں بھی خواتین کے پورشن میں مَرد ہی بَھرے ہوتے ہیں۔

پھر یہ کہ خواتین کا گاڑیوں کے انتظار میں بس اسٹاپس پر کھڑا ہونا بھی کچھ کم اذیّت ناک نہیں کہ مَردوں کی میلی نگاہیں اُن کا تعاقب کرتی رہتی ہیں۔نیز،منہ مانگے کرایوں کے سبب رکشوں میں سفر کرنا بھی آسان نہیں رہا، اوپر سے آئے روز سی این جی کی بندش نے بھی سفر کو مشکل بنا ڈالا ہے۔ ان حالات میں خواتین، خاص طور پر طالبات میں موٹر سائیکل چلانے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور موٹر سائیکل پر تعلیمی اداروں اور دفاتر جانے والی خواتین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جہاں خواتین کے اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے، وہیں اس پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔

اب جب کہ خواتین، آمدورفت میں حائل مسائل سے نبرد آزما ہونے اور حالات کے پیشِ نظر خود موٹر سائیکل چلانے کے لیے سڑکوں پر آگئی ہیں، تو مَردوں سے کہنا چاہوں گی کہ خدارا، سائیڈ مِرر، بیک ویو مِرر اور پیچھے مُڑ مُڑ کر خواتین کو گھورنے کی بجائے اپنی سوچ اور خیالات بدلیں۔ اور خواتین کو ایسا ماحول فراہم کیجیے کہ وہ کہیں بھی بے خوف آجاسکیں۔

تازہ ترین