• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
عالمی منظر پر آج امریکہ اور چین تجارتی جنگ یا امریکہ ایران نیو کلیئر دو اہم تنازعات چھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم امریکہ اور چین کے مابین کشمکش کی اہمیت کو ریڈ فلیگز Red Flags کے مصنف جارج میگنس George Magnus نے اس طرح واضح کیا ہے کہ 1945 سے لے کر اب تک یو ایس چائنا وار جیو پولیٹیکل ایک علامتی لڑائی ہے اور یہ جنگ جانے والی نہیں۔ امریکہ اور چین کے مابین تنازعہ کو دی فنانشل ٹائمز کے مطابق کامرس کی گرامر میں تنازعات کی لاجک منطق کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ logic of conflict in the grammar of commerce یہ وہ phrase ہے، جملہ ہے جو سب سے پہلے امریکن پولیٹیکل سائنسدان ایڈورڈ لیٹ واک نے استعمال کی تھی۔ یعنی جھگڑوں کی بنیاد کی وجہ ان کے پیچھے جو لاجک ہے وہ سمجھنا ازحد ضروری ہوتا ہے۔ عام فہم میں امریکہ کے حوالے یہ لاجک ہے کہ وہ چاہے موبائل ٹیکنالوجی ہو یا نیو کلیئر توانائی جیسی زیادہ اہمیت کی حامل صلاحیت ان پر امریکی اجارہ داری کو برقرار رکھنا ان کا مطمح نظر رہا ہے اور چین یا کوئی اور اس اجارہ داری کو کسی بھی طور چیلنج کرتا محسوس بھی ہوتا ہو امریکی حکومتوں کے لئے ایسا کرنا غیر ذمہ دارانہ فعل قرار پاتا ہے۔امریکی مرضی کے خلاف چوں چراں کرنے والی ریاستوں کو بدمعاش، غیر ذمہ دار ریاستیں ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایک امریکی کمپنی کوئی سافٹ ویئر soft ware بناتی ہے کوئی نئی ونڈو window تخلیق کرلیتی ہے وہ تو انعام و اکرام کی مستحق ٹھہرے گی مگر کوئی چینی، روسی یا کوئی مسلم ملک نیو کلیئر توانائی افزودگی کو تو رہنے دیں، موبائل فون کی نئی ٹیکنالوجی ہی جو گھریلو اور روزمرہ کے استعمال کی مصنوعات ہو اس کو فروغ دینے کی سعی کرے اس پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے کہ یہی طاقت کی منطق اور logic ہے۔ میڈیا وار چلائی جائے گی کہ اس ٹیکنالوجی کو مغرب کے سسٹم میں استعمال کیا تو آپ کے سارے راز چوری ہوکر غیر ذمہ دار افراد اور حکومتوں تک پہنچ جائیں گے۔ ایک ماحول تخلیق کرکے جھوٹ اور سچ کی ایسی آمیزش کردی جاتی ہے کہ غیر جانبدار ممالک اور اداروں کیلئے بھی فیصلہ کرنا مشکل، پہلے ہمنوا ملکوں کو رام کر کے ناروا پابندیاں پھر عالمی اداروں کے ذریعے امریکی تجارتی ٹیکنالوجی اور نیو کلیئر جس بھی طرح کی کوئی لہر باد مخالف سے ابھرنے کی کوشش کرے اسے دبا دیا جاتا ہے یہی کچھ پہلے بھی اور آج کے منظر نامے میں بھی دکھائی دے رہا ہے مغرب کے علاوہ دنیا بھر کی حکومتوں اور لوگوں کی ذہن سازی امریکی سوچ اور خیال کے مطابق کی جاتی ہے حالانکہ اس طرح کا ماحول تخلیق کرنا امریکہ جیسی ایک بڑی سپریم پاور کے شایان شان ہر گز نہیں۔ امریکہ ان معاملات میں مددگار ثابت نہیں ہو پا رہا۔ امریکہ اور چین کے درمیان اس تنازع کی بنیاد ہواوے بحران ہے جس کی ٹیکنالوجی میں ترقی کی رفتار حیران کن تھی۔ بین لاقوامی طور پر ٹیلی کام آلات بنانے کی سب سے بڑی کمپنی کے طور پر ابھری مختلف ملکوں کو فائیو جی ٹیکنالوجی مہیا کرنے کے کنٹریکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہری لیکن پھر امریکی عتاب نازل ہونا شروع ہوگیا۔ امریکی الزامات سے قطع نظر عام مبصرین بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ طاقت کی وہی پرانی امریکی منطق ہے کہ امریکہ کے ہوتے ہوئے آخر کوئی دوسرا کیسے ٹیکنالوجی کے میدان میں راج کرے لیکن دو بڑی معیشتوں کے درمیان یہ جنگ کسی بھی طور خوش آئند نہیں دی فنانشل ٹائمز نے اس صورت حال کی اس طرح منظر کشی کی ہے جس سے اس جنگ کی سنگینی کی لاجک منطق بخوبی واضح ہو جاتی ہے :کہ ٹیکنالوجی وار technology war سٹیل یا سویا بین کی خرید و فروخت میں ایک دوسرے سے مسابقت نہیں بلکہ یہ حقیقی طور پر ایک گلوبل سیکٹر ہےجو حقیقی طور پر عالمی معیشتوں کیلئے خطرات پیدا کرے گی صرف امریکہ یا چین نہیں برطانیہ دیگر سپر پاورز ایشیا سمیت آپ کے پاس یا تو امریکی ٹیکنالوجی کے استعمال کی چوائس ہوگی یا چین بصورت دیگر دوسرے کی جانب سے سزاؤں یا پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس تناظر میں دنیا بھر سے سنجیدہ آوازیں امریکہ اور چین کے درمیان انگیجمنٹ پر زور دے رہی ہیں تاکہ مانند حالات سے بچا جاسکے۔ دونوں بڑی طاقتوں کو ایک دوسرے سے گفت وشنید اور اعتماد بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ دوری سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔
تازہ ترین