• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کچھ کالم نویس اور صاحب دانش لوگ سالانہ بجٹ پر بحث کرنا یا اس کا تجزیہ کرنا کار لاحاصل سمجھتے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔ جس بجٹ کا بڑا حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی اور دوسرے ناگزیر اخراجات کی نذر ہونا ہے اس کے بارےمیں کیا بات کی جائے۔ ترقیاتی منصوبوں اور دوسری سماجی سہولتوں کے لئے پانچ یا دس فیصد مختص بجٹ بھی محض’کاغذی پیراہین‘ ہے جس کا انجام ’عاشق کا گریبان‘ ہونا ہے۔ اس طرح کی صورتحال کی ذمہ داری ہے تو ریاستی وڈیروں کی لیکن عوام کا بہت بڑا حصہ بھی اس ’گناہ بالذت‘ میں شامل ہے۔ بقول ایک کالم نویس، جس ملک میں ایک سال میں حج اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہو اور ان میں سالانہ ٹیکس کرنے والے معدودے چند، وہاں کس کا بجٹ اور کہاں کا بجٹ!

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر مایوسیوں کے باوجود معاشرے کی معاشیات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آخر کار یہی قوموں کی تعمیر و تنزل کا باعث ہوتی ہے۔ روس کی گھسی پٹی مثال آج بھی سچ ہے کہ اس کے پاس دنیا کے بہترین جنگی ہتھیار موجود تھے لیکن اس کی معاشی تباہی نے اسے سپر پاور کے اونچے مقام سے گرا کر اٹلی سے بھی کمتر بنا دیا ہے۔ برصغیر میں ہمارے ہمسائیوں نے معاشی ترقی میں ہمیں جس طرح بہت پیچھے چھوڑا ہے وہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ پاکستان کی موجودہ معیشت کی حالت بجٹ کے بجائے اس سالانہ معاشی سروے سے سامنے آتی ہے جسے چند دن پہلے پیپلز پارٹی کے آزمودہ، وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ نے ایک پریس کانفرنس میں جاری کیا۔ ہماری معیشت میں جو کچھ اہم ترین ہے اس کے احوال کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا اس کے چیدہ چیدہ نکات کچھ اس طرح ہیں:

٭معاشی ترقی 6.2فیصد کے ہدف کے مقابلے میں 3.3فیصد رہی۔ ٭زرعی شعبے میں شرح نمو د کی توقع 3.8فیصد تھی جو کہ حقیقت میں 0.85فیصد رہی۔ ٭بڑی فصلوں میں امید 3فیصد ترقی کی تھی لیکن وہ ترقی کرنے کی بجائے منفی 6.55کی شرح سے سکڑ گئی۔ ٭کاٹن جینگ میں 8.9فیصد ترقی کا ہدف مقرر کیا گیا تھا لیکن وہ منفی 12.74کی شرح سے سکڑ گئی۔ ٭صنعتی ترقی میں 7.6فیصد ہدف مقرر تھا لیکن وہ صرف 1.40شرح سے آگے بڑھی۔ ٭تھوک اور پرچون کی ترقی کیلئے 7.8فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس میں محض 3.11بڑھوتی ہوئی۔

ویسے تو باقی شعبوں کا بھی یہی حال رہا ہے لیکن ہمارے چنیدہ چند بڑے شعبے جو تصویر پیش کر رہے ہیں ان سے تو یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کلی طور پر معیشت میں کوئی ترقی بھی ہوئی ہے۔ ہم روز و شب (غلط یا صحیح)پیٹتے ہیں کہ ہم زرعی ملک ہیں اور اس میں بڑی فصلوں میں 6.55اور کپاس سے متعلقہ صنعت جینگ میں 12.74فیصد سکڑائو آیا تو اس کا مطلب ہے دیہی عوام آج پچھلے سال کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ صنعتی شعبے میں بہت ہی معمولی ترقی ہوئی جبکہ تھوک اور پرچون کے کاروباروں میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں ہوا۔ ان سب اعداد و شمار کو بغور دیکھیں تو اس سے یہی نتیجہ نکلتا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان کی معیشت اس سال ترقی کرنے کے بجائے کافی سکڑی ہے اور ترقی کے بہت نچلی سطح کے اعداد و شمار بھی طلسماتی ہیں۔ ایک دفعہ ایک عالمی ماہر سے پوچھا گیا کہ یہ کس طرح سے ہے کہ پاکستان کے سب بڑے شعبوں میں منفی سکڑاؤ کے باوجود کلی طور پر مثبت ترقی دکھا دی جاتی ہے تو انہوں نے مذاقاً کہا تھا کہ ظاہر ہے کہ مولیاں، گاجریں اور شلجم بہت بڑی مقدار میں پیدا ہوئے ہوں گے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس سال تو سبزیوں کی مد میں بھی اضافہ نظر نہیں آرہا۔

مشیر خزانہ نے اس ناگفتہ بہ صورتحال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کو قرضے کی دلدل میں پھنسایا اور معیشت زبوں حالی کا شکار ہو گئی۔ اگر ان کے اس عذر لنگ کو تسلیم کرنے کی ٹھان لی جائے تو یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ زرمبادلہ کی کمی سے صنعتی ترقی متاثر ہوئی لیکن ان قرضوں سے بڑی زرعی فصلیں، جینگ فیکٹریاں، ماہی گیری اور کریانے کی دکانیں کیسے متاثر ہوئیں؟ ظاہر بات ہے کہ قرضوں کا قضیہ تو اپنی جگہ پر تشویشناک مسئلہ ہے لیکن تقریباً تمامتر شعبوں کا زوال قرضوں کے علاوہ بھی کسی بہت خوفناک صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔

اب اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کلی طور پر معیشت تیزی کے ساتھ تنزل پذیر ہے۔ اس کا تعلق پچھلے دس ماہ والی حکومت کی طفلانہ فکر سے جوڑیں یا اس سے بھی پہلی حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرا لیں یہ سوال اپنی جگہ پر قائم رہے گا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ عالمی حالات کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا نہیں جاسکتا کیونکہ اسی دور میں بنگلہ دیش اور ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ لہٰذا اس کی بنیادی وجہ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور اجتماعی فکری نظام میں ڈھونڈی جانا چاہئے۔

ہمارے خیال میں ترقی معکوس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ(اوپر سے نیچے تک) زرعی دور کی فکری حدوں کا مقید ہو چکا ہے اور صنعتی انقلاب سے گریز پا ہے۔ ذاتی ترجیحات(رسمیں، رواج) سے لے کر رہنما اداروں تک سب ماضی میں رہ رہے ہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے کے جنون سے لے کر گائیں، بھینسیں اور مرغیاں فراہم کرنے تک سب کچھ زرعی پیداوار بڑھانے کی تدبیریں ہیں۔ ہمارے کسی بڑے کو یہ کبھی خیال نہیں آیا کہ ہم صنعتی پیداوار اور نئی انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کیوں نہیں آگے بڑھ رہے۔ ہم ایک بوری گندم کے اضافے کے لئے پریشان ہیں جبکہ بنگلہ دیش ایک بوری سلے ہوئے کپڑوں، امریکہ اور چین ایک بوری سیل فونوں کی برآمد میں جُٹے ہوئے ہیں۔ ایک بوری گندم سے چند ڈالر جبکہ ایک بوری سلے ہوئے کپڑوں سے سینکڑوں ڈالر اور سیل فونوں سے ہزاروں نہیں لاکھوں ڈالر کمائے جا رہے ہیں۔ یہ ترجیحات کا معاملہ ہے کہ آپ اپنے محدود ذرائع کو کس شعبے پر صرف کرنا چاہتے ہیں۔

ذاتی علم کی بنا پر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ ہماری بلند ترین شخصیت کے ذہن میں قبائلی معاشرہ آئیڈیل ہے جوکہ زرعی معاشرے سے بھی زیادہ پس ماندہ ہوتا ہے۔ پچھلی حکومت کو اتنا معلوم تھا کہ صنعتی دور کا تقاضا سڑکوں اور ذرائع نقل و حمل کی ترقی ہے: اس سے آگے جانے سے ان کے بھی پر جلتے تھے۔ اب تو خیر معاملہ ہی دوسرا ہے: زرعی پیداوار کے جنون میں مبتلا قوم اب اس شعبے میں بھی تیزی سے پیچھے جا رہی ہے۔ اس پر تو اجتماعی ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی باہمی دشنام طرازیوں میں ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ چلئے یہی کرلیں:

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

تازہ ترین