• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں جہاں ایک طرف ہندو انتہا پسندی عروج پر ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو عصبیت اور نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہاں دوسری طرف اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر کئی ہندو اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ جس کی تازہ مثال بھارت میں کئی ہندوئوں کا نہ صرف رمضان میں دلچسپی لینا تھا بلکہ روزہ رکھ کر افطار کا اہتمام کرنا تھا۔ اس بار متعصب ہندوئوں کو اس وقت شدید صدمے سے دوچار ہونا پڑا جب یہ خبر منظر عام پر آئی ہے کہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع تہار جیل میں رمضان المبارک کے مہینے میں نہ صرف 150سے زائد بھارتی ہندو قیدیوں نے روزے رکھے بلکہ مسلمانوں کے ساتھ روزہ افطار بھی کیا۔ دیگر ممالک کی طرح یو اے ای میں بھی اس بار درجنوں ہندوئوں نے رمضان المبارک مناتے ہوئے نہ صرف روزے رکھے بلکہ مساجد میں جاکر مسلمانوں کے ساتھ روزہ افطار کیا، جن کا یہ کہنا تھا کہ انہیں روزہ رکھ کر دلی سکون محسوس ہوا اور وہ اسلام سے بے حد متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان میں بھی اس بار کئی غیر مسلم ممالک کے سفارتکاروں نے رمضان المبارک مناتے ہوئے اپنے سفارتخانوں میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا جن میں سے کچھ تقریبات میں، میں نے بھی شرکت کی۔ کراچی میں متعین امریکی قونصل جنرل جان واگنر نے امریکی قونصلیٹ کی بلڈنگ میں ایک بڑے افطار ڈنر کا اہتمام کیا جس میں، میں بھی مدعو تھا۔ افطار میں شہر کی معروف شخصیات بڑی تعداد میں شریک تھیں۔ روزہ کھولنے سے قبل امریکی قونصل جنرل نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آج قونصلیٹ کی اس بلڈنگ میں رمضان کے موقع پر افطار کا اہتمام کیا گیا ہے۔ انہوں نے شرکا کو بتایا کہ دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں بھی امریکی سفارتخانوں میں رمضان کے مبارک موقع پر مسلمانوں کیلئے اسی طرز کے افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا ہے جو مذہبی ہم آہنگی کا مظہر ہے۔رمضان کی مناسبت سے کراچی میں متعین برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر ایلن برنس نے بھی برطانوی ڈپٹی ہائی کمیشن میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا جس میں شہر کے معززین اور میرے علاوہ بزنس کمیونٹی کے نمائندے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ افطار ڈنر میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر نے ہمارے ساتھ روزہ کھولا۔ یہ بات بڑی خوش آئند تھی کہ امریکی اور برطانوی افطار ڈنر میں شرکاء کیلئے پاکستانی کھانے رکھے گئے تھے اور دونوں جگہوں پر روزہ کھولنے کے بعد نماز کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک کے موقع پر وہائٹ ہائوس میں مسلمانوں کیلئے افطار ڈنر کا اہتمام کیا گیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اسلام مخالف سمجھے جاتے ہیں، نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دی بلکہ مذہب اسلام کی تعریف کرتے ہوئے اسے ’’بہترین دین‘‘ قرار دیا۔ افطار ڈنر میں اسلامی ممالک کے سفیروں، امریکی کابینہ کے اراکین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی مسلمان شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اسی طرح کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی دارالحکومت اوٹاوہ کے اسلامک سینٹر میں مسلمانوں کے ساتھ روزہ افطار کیا جبکہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے، فرانسیسی صدر ایمانویل اور جرمن چانسلر انجیلا سمیت دیگر عالمی رہنمائوں نے رمضان المبارک کے موقع پر مسلمانوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی۔

رمضان کے مبارک موقع پر میں ہر سال اپنی رہائش گاہ پر افطار کا اہتمام کرتا ہوں۔ اس سال رمضان میں مسلم لیگ(ن) بزنس کونسل کے صدر کی حیثیت سے میں نے بزنس کونسل کے ممبران، بزنس کمیونٹی کی سرکردہ شخصیات، فیڈریشن اور چیمبرز کے عہدیداروں کے اعزاز میں ایک بڑے افطار عشایئے کا اہتمام کیا جس میں سابق صدر ممنون حسین، سابق گورنر سندھ محمد زبیر، سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور مسلم لیگ(ن) سندھ کے صدر شاہ محمد شاہ نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ سابق وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود افطار ڈنر میں شرکت کیلئے لاہور سے کراچی تشریف لائے۔ افطار عشایئے میں ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ، نائب صدور ارشد جمال اور نور خان بھی موجود تھے جبکہ تقریب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد، معروف قانون دان خالد جاوید اور بزنس کونسل کی خواتین ممبران نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

9/11 کے بعد امریکی صدر بش کا یہ جملہ کہ ’’9/11کا حملہ دنیا کی تاریخ بدل دے گا‘‘ آج درست ثابت ہورہا ہے کیونکہ 9/11کے بعد مذہب اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے جس کی ایک وجہ 9/11کے بعد غیر مسلموں میں یہ تجسس پیدا ہونا ہے کہ اسلام کیسا مذہب ہے کہ جس کے ماننے والے اس پر اپنی جان تک نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ غیر مسلموں کا یہی تجسس اُنہیں اسلام کی جانب راغب کررہا ہے جس سے اُنہیں نہ صرف قلبی سکون حاصل ہورہا ہے بلکہ اسلام کو قریب سے سمجھنے اور جاننے کا موقع بھی مل رہا ہے جبکہ اُن کے ذہنوں سے اسلام کے بارے میں مغربی میڈیا کی پھیلائی گئی غلط فہمیاں بھی دور ہورہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو سب سے بڑا خطرہ اسلام سے ہے جس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے یہ ممالک شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور ہر قیمت پر اسلام اور مسلمانوں کی پیش قدمی روکنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین بنانے سمیت ہر وہ اقدامات کررہے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی پیشرفت روکنے میں مددگار و معاون ثابت ہوسکے جس کی حالیہ مثالیں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام جیسے اسلامی ممالک میں امریکہ اور اتحادی ممالک کی جارحیت ہے۔ مغربی ممالک کی بھرپور کوشش ہے کہ جو مقاصد وہ اسلامی ممالک پر قابض ہوکر حاصل نہ کرسکے، وہ اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب اور ایران میں سنی شیعہ مسلمانوں کو باہمی طور پر لڑوا کر حاصل کیا جائے تاکہ دنیا پر مسلمانوں کی گرفت کمزور پڑجائے لیکن افسوس کہ مسلمان اپنے دشمنوں کی چال سمجھنے سے قاصر ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ کاش کہ امت مسلمہ اپنے باہمی اختلافات بھلاکر اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر متحد ہوجائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین