• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادھر اسلام آباد میں مولانا قادری چالیس لاکھ گم سم لوگوں پر تقریروں کے تیر چلا رہے تھے جو کہ گنتی میں چالیس ہزار تھے اور ادھر کراچی میں ہم تین چار حواس باختہ دوست پولیس تھانوں کے دھکے کھا رہے تھے اور افسران کی جھڑکیاں سن رہے تھے۔ ہم ٹن وزیروں، مشیروں اور مشیروں کے مشیروں سے بھی ملے وہ ہماری بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑتے اور کہتے تھے ”اڑے چریا، تم وڑی ماٹھہ کر کے تماشا دیکھو۔ تم ڈٹ کے روٹی کھاؤ۔ سٹھے کپڑے پہنو اور اپنے مکان میں جکھ مارو اور الغوزے پے لوک دھن سنو اور دمادم مست قلندر کرو“۔
سائیں قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس وزیروں، مشیروں، صلاح کاروں، نائب مشیروں اور نائب صلاح کاروں اور نائب قاصدوں کی فوج ظفر موج میں کچھ وزیر کچھ مشیر، کچھ صلاح کار سائیں کے راج دلارے ہیں اور ان کی آنکھ کے تارے ہیں۔ ان راج دلاروں اور آنکھ کے تاروں میں کچھ دلارے اور تارے سائیں کے بہت قریب ہیں بلکہ عنقریب ہیں۔ ان میں ایک دلارے کا نام اپنی مثال آپ ہے۔ ان کا نام ہے خان خانخانا خان۔ میں ان کو رنگ کا سانولا اس لئے نہیں کہتا کہ میں سانولا نہیں ہوں، میں رنگ کا کالا ہوں اور خان خانخانا خان مجھ سے زیادہ کالا ہے، ان کی موجودگی میں خود کو میں انگریز سمجھتا ہوں۔ ان کے پی اے کے پی اے سے ہم نے خان خانخانا خان سے ملاقات کے لئے وقت مانگا۔ بزرگ دوست پیر محمد پشاوری نے خان خانخانا خان سے پشتو میں کہا ”مولانا قادری کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے حکومت کو فارغ کردیا ہے، اب جس طرح وہ چاہیں گے پاکستان چلائیں گے، یہ بغاوت ہے۔ آپ کی مرکزی حکومت مولانا قادری پر بغاوت کا کیس کیوں داخل نہیں کرتی؟خان خانخانا خان کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ انہوں نے نستعلیق اردو میں کہا ”مجھے پشتو نہیں آتی“۔
پیر محمد پشاوری نے تعجب سے پوچھا ”کیا آپ پٹھان نہیں ہیں؟“
”میرے نام میں تین مرتبہ خان آتا ہے“ خان خانخانا خان نے کہا ”میں اصلی اور خالص پٹھان ہوں“۔
پیر محمد پشاوری نے پوچھا ”پھر آپ کو پشتو کیوں نہیں آتی“؟دلارے مشیر خان خانخانا خان کے تیور بدل گئے، حلق سے آواز نکالتے ہوئے خان صاحب نے کہا ”مدعا بیان کرو، کس مقصد سے آئے ہیں آپ لوگ“۔
ہم نے مدعا بیان کیا جس کا لب لباب وہی تھا جو پیر محمد پشاوری نے پشتو میں بیان کیا تھا۔ مدعا سننے کے بعد خان صاحب نے کرخت لہجے میں کہا ”حکومت کے استحقاق اور صوابدیدی اختیارات کے بارے میں آپ کچھ نہیں کہہ سکتے، حکومت اپنے فیصلے خود کرتی ہے، آپ کے اسرار پر حکومت کسی کے خلاف بغاوت کا کیس داخل نہیں کر سکتی“۔
ہم اپنا سا منہ لیکر وہاں سے لوٹ آئے۔ ٹیلیویژن لگایا۔ مولانا قادری اپنی دھواں دار تقریر میں محو تھے۔ بار بار امام حسین کا تذکرہ کر رہے تھے۔ اپنی تحریک کو معرکہ کربلا سے مماثلت دے رہے تھے۔ حکومت وقت کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے۔ ہم دوستوں نے فیصلہ کیا کہ ہم کسی پولیس تھانے جا کر مولانا قادری کے خلاف دو ایف آئی آر داخل کرائیں گے، ایک بغاوت اور دوسرے بلاسفیمی۔
ہم تھانے پہنچے، ایس ایچ او سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ تھانیدار معتبر قسم کا مچھندر تھا۔ تحمل سے ہماری بات سننے کے بعد اس نے کہا ”قادری صاحب اسلام آباد میں تقریریں کر رہے ہیں، ان کے خلاف کیس بھی اسلام آباد کے کسی تھانے میں درج ہو سکتا ہے، بہتر ہے کہ آپ اسلام آباد جائیں“۔اسلام آباد جانا اور مولانا قادری کے خلاف پرچہ کٹوانا ہم فقیروں کے بس کی بات نہیں تھی۔ ہم نے مچھندر تھانیدار کی نیت پر شک کیا اسے مولانا قادری کا معتقد جانا۔ ہم کسی دوسرے پولیس اسٹیشن کی تلاش میں نکل پڑے۔ دو چار پولیس اسٹیشنوں میں ہم نے جھانک کر دیکھا۔ جلادوں سے ملتی جلتی شکلوں والے تھانیدار دیکھ کر ہم بھاگ کھڑے ہوئے۔ آخر کار ایک پوش علاقے میں واقع پولیس اسٹیشن کا تھانیدار ہمیں معقول محسوس ہوا ۔ وہ خواہ مخواہ مسکرا رہا تھا۔ ہماری گزارشات سننے کے بعد اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ”تو آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر قادری کے خلاف میں بغاوت اور بلاسفیمی کے دو پرچے کاٹوں؟“
ہم دوستوں نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ مسکراتے ہوئے تھانیدار نے پوچھا ”آپ حکومت پاکستان ہیں؟“
سوال سن کر ہم چونک اٹھے۔ تھانیدار نے مسکراتے ہوئے کہا ”بزرگو، بتائیے نا، آپ پاکستان کے حکمراں ہیں؟“
ہم دوستوں نے انکار میں سر کو جنبش دی۔
سدا بہار تھانیدار نے مسکراتے ہوئے کہا ”ڈاکٹر قادری کے خلاف بغاوت اور بلاسفیمی کے پرچے حاکم وقت کٹوا سکتے ہیں۔“ اب حاکم وقت سے ملاقات ہو بھی، تو کیسے ہو؟ ہم لوگ سر پکڑ کر خیراتی کھانا کھلانے والوں کے دستر خواں پر بیٹھ گئے۔ ہم اللہ کے نام پر ملنے والا کھانا کھا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ہم لوگ عبداللہ بن کر بیگانی شادی میں کیوں کود پڑنے کے درپے تھے! اصل میں ہمیں اپنا بچھڑا ہوا دوست بیگانا باغی یاد آرہا تھا جو بغاوت کے الزام میں عمر قید کاٹنے کے بعد الوپ ہو گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دیوانا تھا، شاعری کرتا تھا، شاعری میں ذوالفقار علی بھٹو کے گن گاتا تھا، کسانوں اور مزدوروں کے گیت لکھتا تھا۔ استحصال کی علامت بنے ہوئے جاگیردار، سردار، زمیندار، چوہدری اور وڈیروں کے خلاف شاعری کرتا تھا۔ پیپلزپارٹی کے جلسوں میں ترنم سے گیت گاتا تھا پھر اقتدار میں آنے کے بعد جب پیپلزپارٹی نے ممبر شپ کے دروازے استحصال کرنیوالے زمینداروں، جاگیرداروں، سرداروں، پیروں، وڈیروں اور چوہدریوں پر کھول دیئے تب جے ایم رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن اور معراج محمد خان جیسے ممبروں نے احتجاجاً پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ بیگانے باغی نے بغاوت کر دی، اپنی شاعری میں غریبوں کی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے، پکڑا گیا، بغاوت کے کیس میں عمر قید کاٹنے کے بعد بیگانہ باغی غائب ہو گیا۔ دراصل ہم درپے تھے ثابت کرنے کے لئے کہ بیگانے باغی نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کی تھی، اس نے استحصال کرنے والوں کی پارٹی ممبر شپ پر احتجاج کیا تھا۔ اس کے برعکس مولانا قادری نے حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔
”تم جو سوچ رہے ہو، میں وہ سن سکتا ہوں“ ایک مجذوب اجنبی نے خیراتی کھانا کھاتے ہوئے کہا ”پیپلزپارٹی بینظیر بھٹو کی بیساکھیوں پر کھڑی ہوئی ہے اور بینظیر بھٹو علامہ قادری کی معتقد اور مرید تھیں۔ حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے“ اچانک مجذوب چھلانگ لگا کر کھڑا ہوگیا اور ناچتے ہوئے، نعرے لگاتے ہوئے آگے نکل گیا ”قادری زرداری بھائی بھائی، قادری زرداری بھائی بھائی“۔
تازہ ترین