• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ کو میری بات ناگوار گزرے تو یہ مصرعہ پڑھ کر مجھے معاف کردیجئے گا
جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر
سچی بات یہ ہے کہ میں گزشتہ چند دنوں سے کبھی کبھی پریشانی کا شکار ہوجاتا ہوں اور گہری سوچ میں غوطے کھانے لگتا ہوں۔اللہ کا شکر ہے کہ مجھے عام طور پر پریشان رہنے کی عادت ہرگز نہیں کیونکہ میں نے اپنے معاملات اللہ پاک کے سپرد کرکے قدرت کے فیصلوں سے کافی حد تک سمجھوتہ کرلیا ہے ،اس لئے ادھر ادھر کی پریشانیاں مجھے بالکل نہیں چھیڑتیں البتہ جب ملکی و قومی حوالے سے مسئلہ درپیش ہو تو میں ضرور سوچوں کی وادی میں کھوجاتا ہوں۔ ایک نہیں بہت سارے کالم نگار اور بہت سارے اینکر پرسن اور تجزیہ نگار بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر آئین کی شقوں 62-63کا اطلاق کیا گیا تو اٹھارہ کروڑ عوام میں کوئی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا۔ایک تجزیہ نگار رٹ لگائے جارہے تھے کہ یہ شقیں جنرل ضیاء الحق کا تحفہ ہیں اور وہ خود بھی ان کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔ میں گزشتہ دو ہفتوں سے اس طرح کے تجزیات اور تقریباً متفقہ فیصلے پڑھ پڑھ کر پہلے پریشان اور پھر گہری سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔ سوچ کے افق پر ایک ہی سوال ابھرتا ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ واقعی ہی اتنا کرپٹ، بے راہرو اور دین سے باغی ہوگیا ہے کہ پاکستان میں سچے، ایماندار اور امانتدار لوگوں کا قحط پڑگیا ہے۔ قحط الرجال کی شکایت ہمیشہ رہی ہے اور صدیوں سے اس شکایت کی بازگشت تاریخ کے صفحات سے سنائی دے رہی ہے لیکن اس کا مقصد لوگوں کو مزید بہتر مسلمان بنانا تھا۔
اب تو تبصرے سن سن کر اور پڑھ کر لگتا ہے جیسے پاکستان سے اسلامی اقدار کا جنازہ ہی نکل گیا ہے۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ تاثر غلط ہے ۔پاکستانی معاشرے میں اچھے مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے جو دیندار ہیں، دلوں میں ا للہ کا خوف رکھتے ہیں، جھوٹ ،دھوکہ دہی اور بے ایمانی سے بچتے ہیں اور غیر شرعی عادات سے اجتناب کرتے ہیں۔ یقین رکھیئے میں اولیاء اکرام ،صالحین اور عابد و زاہد حضرات کا ذکر نہیں کررہا جو ماشاء اللہ ہمارے اردگرد موجود ہیں ۔ میں عام مسلمانوں کی بات کررہا ہوں جن سے ہمیں پالا پڑتا ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور اس قبیلے کے لوگوں کو عام طور پر بالائی اور نیم بالائی طبقوں سے پالا پڑتا ہے جہاں پینا پلانا، مغربی انداز کا اختلاط، رشوت، حرام کی کمائی، جھوٹ اور قرضوں کو ہضم کرنے کا رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے، چنانچہ ان کا ایک تاثر بن گیا ہے حالانکہ ان طبقوں میں بھی ایماندار اور دیندار خاندان بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میں ان بالائی طبقوں میں بھی ایسے ایسے عابد و زاہد دیکھتا ہوں جن کے ظاہر و باطن پر رشک آتا ہے اور جنہوں نے مسجدوں کو آباد کر رکھا ہے تو پھر یہ مایوسی کیوں؟ پھر ہر وقت یہ راگنی کیوں گائی جاتی ہے کہ کوئی امیدوار بھی آئین کی 62-63نمبر شقوں پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ جب ہمارے دانشور اور تجزیہ نگار اس طرح کے نعرے لگاتے ہیں تو میں حیرت سے پارٹی کے سربراہوں پروفیسرمنور، میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت، مولانا ساجد میر، مولانا فضل الرحمن، عمران خان وغیرہ وغیرہ کو دیکھنے لگتا ہوں اور پھر مجھے اس پر ترس آنے لگتا ہے بھلا کیوں، اس کا جواب اس مصرعے میں ہے
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
مطلب کہ اس سیاست اور اقتدار کے کھیل میں”عزت“ کا بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ بولنے اور لکھنے والے ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ انتخابات میں کوئی بھی امیدوار اس معیار پر پورا نہیں اترے گا۔ گویا وہ سب ان قومی لیڈروں، ان کے ساتھیوں اور کارکنوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں؟
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آئین کی شق62میں ا یسا کونسا ایٹم بم چھپا ہوا ہے جو امیدواروں کو نیست و نابود کردے گا اور جس کے خلاف کچھ دنوں سے”سیاپا“ یعنی رونا پیٹنا جاری ہے۔ زیادہ ترآئین کی شق62کی ذیلی دفعات D,E,F,G,Hکا ذکر کیا جارہا ہے جن کا نچوڑ کچھ یوں ہے کہ پارلیمنٹ کے رکن کا کردار اچھا ہو، وہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کی شہرت نہ رکھتا ہو۔(زور شہرت پہ ہے ،چھپ چھپا یہ نہیں) اسلامی تعلیمات کا علم رکھتا ہو اور گناہوں سے بچتا ہو، سچا ایماندار اور امین ہو اور فضول خرچ نہ ہو۔ کسی غیر اخلاقی جرم میں سزا نہ پائی ہو اور پاکستان کی آئیڈیالوجی اور اتحاد کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث نہ رہا ہو۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور اسمبلیوں کے اراکین کو ا ن شرائط کے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، اگر آپ ان میں سے”اسلام“ کے الفاظ نکال دیں تو یہ ساری شرائط وہ ہیں جن کی توقع امریکہ، انگلستان اور یورپ کے سیکولر اور لبرل معاشروں میں بھی کی جاتی ہے۔ میں اس طرح کی ہزاروں مثالیں دے سکتا ہوں لیکن کالم کا دامن محدود ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اور ان کے پیروکار ہر قسم کی کھلی چھٹی چاہتے ہیں ورنہ تو اگر امریکہ میں بھی کانگریس کے کسی رکن پر بے ایمانی ،جھوٹ، جنسی اختلاف، رشوت ا ور دھوکہ دہی کا الزام لگے‘ تو اسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے جبکہ ہمارے اراکین پر ہر قسم کے الزام لگتے رہتے ہیں اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ وہ شرمندہ بھی نہیں ہوتے کیونکہ خزانہ چوری، جھوٹ و فریب، سرکاری قوانین کی پامالی، کارسرکار میں مداخلت، دولت کی نمائش اور فضول خرچی، مجرموں کی حمایت اور تحفظ اور جھوٹی شان و شوکت کو اسمبلی رکنیت کا ”خراج“ سمجھا جاتا ہے۔ واضح کردوں کہ اسمبلیوں میں بھی شرفاء اور دیانتدار اور دیندار حضرات موجود ہیں لیکن اکثریت کی آکاش بیل اقلیت پر چھا جاتی ہے اور یوں ایک غلط تاثر قائم ہوجاتا ہے۔
یارو یہ شقیں جنرل ضیاء الحق کے اسلامی دور حکومت میں آئین کی زینت بن تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا کہ ہمارے دانشور انہیں طعنے دیں۔ مسلمان ملک اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب نمائندوں سے اس معیار پر پورا اترنے کی آرزو چاند یا سورج مانگنے کے مترادف نہیں۔ خرابی کی جڑ روایتی خاندانوں ،پیشہ ور حکمرانوں اور بالائی طبقوں کا سیاست پر تسلط ہے جن کے بارے میں عام طور پر یہ شکایات سنی جاتی ہیں اگر سیاسی پارٹیاں اصولوں کے مطابق پارٹی الیکشن کرواتی رہتیں تو کسی حد تک روایتی اور دیرینہ طبقوں کی گرفت کمزور ہوجاتی لیکن ہمارے سیاستدانوں کی خواہش تھی کہ آئین کی اور بہت سی شقوں کی مانند یہ شقیں بھی صرف سجاوٹی سامان بنیں رہیں، مثلاً آئین کے سیکشن چھ کے تحت آئین کی خلاف ورزی کی سنگین غداری ہے۔ آئین کے نافذ ہونے کے بعد دو مارشل لاء لگے۔ کیا کسی کو اس جرم کی سزا ملی ، آئین کے مطابق ثانوی تک تعلیم لازمی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی طرز حیات کو فروغ دینا اور مسلمانان پاکستان کی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا حکومتی فرض ہے۔(بحوالہ پالیسی کے اصول) کیا آج تک ان اصولوں پر عملدرآمد ہوا؟ اسی طرح ہمارے سیاستدان اور حکمران اور سیاست کا کاروبار کرنے والے طبقے چاہتے تھے کہ آئین کی یہ شقیں بھی استراحت فرماتی رہیں اور سجاوٹی سامان کی مانند سجی رہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر طاہر القادری کا جس نے ان شقوں کو زندہ کردیا اور حکومت کو عمل پر مجبور کردیا۔ آپ ڈاکٹر طاہر القادری کی کردار کشی کرتے رہیں۔ ان کے لانگ مارچ کے پس پردہ محرکات، ہاتھ اور ڈالر ڈھونڈتھے رہیں، انہیں مولوی کینیڈا کا خطاب دیتے رہیں ،مجھے اس سے غرض نہیں لیکن میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ان سجاوٹی اور مردہ شقوں میں جان ڈال دینا، حکومت کو ان پر عمل کرنے پر مجبور کردینا اور الیکشن کمیشن کا30ایام تک امیدواروں کی اہلیت کو ان اصولوں کی چھلنی میں چھلنا اور پرکھنا اور پھر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا بہرحال ایک کارنامہ ہے۔ ظاہر ہے کہ آئین کی ان شقوں پر عملدرآمد کے لئے طریقہ کار وضح کیا جائے گا جو بہرحال پل صراط نہیں ہوگا لیکن اس سے بڑی پارٹیوں ، سیاستدانوں، لیڈروں اور متوقع امیدوار وں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ انہیں اقتدار پر گرفت ڈھیلی ہوتی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن کے بعد سپریم کورٹ بھی موجود ہے جس کا خوف انہیں پریشان کررہا ہے۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر کہئے کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہماری اسمبلیوں میں سچے، دیانتدار، اچھی شہرت اور اچھے کردار والے نمائندے منتخب ہو کر آئیں؟
ایسے لوگ حکومت میں آئیں گے تو حالات تھوڑے بہت بدلیں گے ورنہ اسی طرح لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا اور جمہوریت کا ”سیاپا“ جاری رہے گا۔ میرا اندازہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اسی امید پر مسلم لیگ(ن)سے انتخابی اتحاد کیا ہے کہ مسلم لیگ کے امیدوار ان شرائط کے باعث کم پڑجائیں گے تو جماعت کے صالحین کو موقع مل جائے گا، لگتا ہے کہ جماعت اسلامی انتخابی سیاست کے جوڑ توڑ سمجھنے لگی ہے، اس پر پھر انشاء اللہ۔
تازہ ترین