• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی معیشت کی بہتری، ترقی اور علاقائی روابط کے فروغ کے لئے وزیراعظم عمران خاں نے جس 13رکنی قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل کی منظوری دی، ملکی حالات و مسائل اور خطے کی صورتحال کے تناظر میں اسے اس اعتبار سے خاص اہمیت حاصل ہے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کی شمولیت کی صورت میں سویلین اور فوجی قیادت کی ایسی مشاورت کا مستقل اہتمام کیا گیا ہے جس کا دائرہ خاصا وسیع ہوگا جبکہ اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین کا نقطہ نظر بر وقت دستیاب ہونے کے باعث جلد فیصلے کرنے اور فوری طور پر نافذ کرنے میں آسانی ہوگی۔ نیشنل ڈولپمنٹ کونسل (این ڈی سی) وزیراعظم آفس میں کام کرے گی۔ اس کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے جبکہ آرمی چیف، وزیر خارجہ، وزیر منصوبہ بندی مشیر خزانہ اور مشیر تجارت کے علاوہ کئی سیکرٹری صاحبان بھی کونسل کے ارکان میں شامل ہیں۔ اس اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر، چاروں صوبوں اور گلگت و بلتستان کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر لوگوں کو بھی شریک کیا جاسکے گا۔ وطنِ عزیز اس وقت جن گونا گوں مسائل اور چیلنجوں سے دوچار ہے اس میں نہ صرف ایسے بروقت فیصلے کرنے والے اداروں کو مستقل طور پر فعال رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی کمیٹیوں کے ذریعے حاصل ہونے والی جائزہ رپورٹوں سے استفادہ کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والے ممالک اپنے حکومتی اداروں کی جائزہ رپورٹوں اور تھنک ٹینکوں کے پیش کردہ مثالوں کی صورت میں صدیوں آگے تک رونما ہونے والے سماجی، سیاسی، تہذیبی، جغرافیائی تغیرات کا اندازہ لگا کر چیلنجوں سے نمٹنے کی حکمت عملی بنا لیتے ہیں۔ ایک متعین راہ پر چلنے اور ضروری تیاریوں سے لیس ہونے کی بنا پر انہیں چیلنجوں سے نمٹنے میں ہی نہیں، تاریخ اور جغرافیہ کو بھی اپنے قومی مفادات کے لئے طے شدہ رخ پر موڑنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں ایسے مباحثوں اور مناقشوں کی تعداد خاصی ہے جن میں الجھ کر بعض مواقع پر ہم اطراف سے بڑھنے والے مگرمچھوں کی طرف بروقت توجہ دینے میں ناکام رہے۔ وطن عزیز کو اس وقت جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں معیشت پہلی ترجیح بن چکی ہے جبکہ سات عشروں سے درپیش سیکورٹی اور بیرونی شرارتوں کے خطرات چند ہفتے قبل بھی جنگ جیسی فضا میں تبدیل ہوتے محسوس ہوئے۔ اس کے اثرات سے پوری طرح باہر آنے کی ہماری کوششیں تاحال جاری ہیں۔ دوسری جانب افغانستان، مشرق وسطیٰ، خلیج میں ابھرنے والے تضادات اور امریکہ ایران کشیدگی سمیت خطے کی صورتحال سنگین تر ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ ایسے حالات ہیں جن میں سیاستدانوں، فوج اور عوامی حلقوں سمیت سب کو چوکنا رہنا ہوگا۔ قوموں کو بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مشترکہ اقدامات بروئے کار لانا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے درست طور پر واضح کیا ہے کہ پاک فوج وطن کا دفاع کرنے، خطرات سے نبرد آزما ہونے اور دیگر ریاستی اداروں سے مل کر قومی ردعمل دینے کے لئے تیار ہے۔ منگل کے روز نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں خطاب کے دوران ہر قسم کے خطرے کے لئے مشترکہ قومی جواب کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عساکرِ پاکستان دفاعِ وطن کے لئے تیار ہیں۔ ہر بڑے چیلنج کے وقت ہماری قومی زندگی میں چھوٹے مناقشوں کو نظرانداز کرکے سنجیدگی اختیار کرنے کا جو مظاہرہ نظر آتا ہے ان شاءاللہ اب اس میں وہ تاخیر کبھی نہیں ہوگی جو دہشت گردی کے مگرمچھ کے منہ کھول کر سامنے آنے کے وقت نظر آئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات اپنی جگہ مگر وقت کی نزاکت ایسے رویوں کی متقاضی ہے جن سے وطنِ عزیز میں نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ساتھ مل کر چلنے کا عزم نمایاں ہو۔ نئے سفرمیں نئی قیادت اور دیگر تمام حلقے مل کر پاکستان کی بھلائی کے لئے سوچیں بھی اور آگے بھی بڑھیں۔

تازہ ترین