• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی سی سی ورلڈ کپ 2019میں شرکت کے لئے پاکستان کی بعض تجربہ کار اور کئی ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں پر مشتمل کرکٹ ٹیم بڑی روشن امیدوں کے ساتھ لندن گئی تھی لیکن پانچ میچ کھیلنے کے بعد ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی دس ٹیموں میں اس وقت نویں نمبر پر پہنچ گئی ہے، صرف افغانستان کی کمزور ٹیم اس سے ایک نمبر نیچے ہے۔ ابھی اس نے چار ٹیموں نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ اور افغانستان کے ساتھ کھیلنا ہے اور سیمی فائنل میں جگہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان چاروں کو اچھے مارجن سے ہرائے۔ کھیل میں ہارجیت لگی رہتی ہے مگر بھارت سے اس کا ہارنا قوم کے لئے کبھی قابلِ قبول نہیں رہا، اس ہار پر ٹیم ہر طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔ کوئی ٹیم کی حکمت عملی پر اعتراض کر رہا ہے اور کسی کو شک ہے کہ وہ اختلافات کا شکار ہے تاہم پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی نے کپتان سرفراز احمد کی بجا طور پر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں درست مشورہ دیا ہے کہ وہ منفی تبصروں پر توجہ دینے کے بجائے اگلے میچوں میں کامیابی کی منصوبہ بندی کریں۔ ٹیم کی سلیکشن کے وقت ہر کھلاڑی کی پیشہ ورانہ مہارت، تکنیک فٹنس، سٹیمنا اور گزشتہ کارکردگی کو دیکھا جاتا ہے، موجودہ ٹیم کے انتخاب میں بھی انہی اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ہے لیکن وہ میدان میں توقعات پر پوری نہیں اتری۔ خاص طور پر بھارت کے خلاف پوری ٹیم لڑکھڑاتی نظر آئی تاہم انہی کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیم کو اگلے میچوں میں اچھی کارکردگی دکھانا ہے، اس لئے برا بھلا کہنے کے بجائے ان کا حوصلہ بڑھانا چاہئے۔ 1992کے ورلڈ کپ میں بھی ابتدا میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ تھی اور لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ٹورنامنٹ سے باہر ہونیوالی ہے لیکن آخر میں وہ چمپئن بن کر ابھری۔ کرکٹ کے منتظمین، نقادوں اور شائقین کو چاہئے کہ کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔ پاکستانی ٹیم کو مبصرین نے ہمیشہ ایسی ٹیم قرار دیا ہے جسکے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا ممکن نہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اگلے میچوں میں اچھا کھیل کر وہ ناممکن کو ممکن کر دکھائے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین