• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک تو قیامت کی گرمی پھر بھارت سے شکست فاش۔ مزاج میں تندی تو آنا ہی تھی۔ ایک بلند قامت کھاتے دار ہانپتے کانپتے بینک کے برانچ منیجر سے بڑی عجلت میں ڈیڑھ لاکھ کا چیک کیش کرنے کو کہہ رہے ہیں اور ساتھ ایف بی آر کے کسی افسر کو بے نقط گالیاں بھی نکال رہے ہیں۔ کل سے پریشان کر رکھا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ لاکر دو، اوپر تک دینا ہے۔ آج نہیں لائے تو میں اکائونٹس بند کروا دوں گا۔ بینک منیجر ان کی پریشانی دیکھ کر خود ہی کائونٹر پر چلے جاتے ہیں۔ یہ مضطرب اور برہم صاحب مجھ سے کہتے ہیں جناب میں کئی کروڑ کا ٹیکس پوری ایمانداری سے ادا کرتا ہوں پھر بھی میرے ساتھ یہ سلوک۔ اپنے ملک کو قومی خزانے کو تو میں جتنا واجب الادا ہوگا، دوں گا مگر میں ان رشوت خوروں کو کیوں دوں۔ بڑے افسر بھی اس خبیث دائرے میں شامل ہیں۔ وہ بھی دھتکار دیتے ہیں۔ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ ایف بی آر والے شبر زیدی کو بھی ناکام کردیں گے، عمران خان کو بھی۔ سندھ پروفیشنل ٹیکس والے بھی پھڑ پھڑاتے شلوار قمیص میں مونچھوں کو تائو دیتے آجاتے ہیں۔ 20ہزار فوراً دو ورنہ اکائونٹ بند کروا دیں گے۔

آج کل اپنے انگوٹھے کی چھاپ دینے کے لئے بینکوں کی برانچوں میں جانا ہورہا ہے تو بزرگوں کی بے بسی، مائوں کو لاٹھیوں کے سہارے چلتا دیکھ رہا ہوں۔ اپنے پیسے ہیں، ان کے ضبط ہوجانے کا ڈر، بعض کھاتے داروں کے کھاتے چالیس پچاس سال پرانے ہیں۔ وہ بھی بائیو میٹرک کے لئے قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ سرکاری افسروں کے چہروں پر نیب کا خوف ہویدا ہے۔ بینک افسر بے چارگی کا اظہار کرتا ہے۔ کیا کریں جی، اسٹیٹ بینک کا حکم ہے۔ لمبے لمبے پرفارمے ہیں، پرنٹ نکل رہے ہیں۔

ہوس زر میں مبتلا چند افراد کی وجہ سے پوری قوم مشکوک ہوگئی ہے۔ پہلے اسٹیٹ بینک بھی ان طاقت وروں کے آگے بولنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ بے قاعدگی زوروں پر رہی، سرکاری اور غیر سرکاری بینک ان زرداروں کو نوازتے رہے۔ وہ تو اب امریکہ نے صور پھونکا۔ اقوام متحدہ نے امریکہ کی آواز میں آواز ملائی۔ پرفارمے پر پرفارمے پرنٹروں سے نکلنے لگے تو بینک بوکھلائے ہوئے فون کر رہے ہیں، اشتہار دے رہے ہیں، نقارے بج رہے ہیں۔ 30جون تک انگوٹھے لگائو ورنہ آپ کی عمر بھر کی بچت بحق سرکار ضبط ہو جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان بھی ٹی وی پر آکر ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ کبھی بچت پر زور دیا جاتا تھا۔ اب یہ بچت جرم بن رہی ہے۔ انکم ٹیکس وکیل مشیر ہزاروں میں کھیل رہے ہیں، ڈرا رہے ہیں، بہت سخت سزا ہوگی۔ جو سالہا سال سے ٹیکس باقاعدگی سے ادا کررہے ہیں۔ ان کو بھی کوئی چھوٹ نہیں ہے۔ بینک پرائیویٹ ہوں یا سرکاری، بائیو میٹرک میں ایک سا رویہ ہے۔ بینک بالکل پولیس تھانے بنے ہوئے ہیں۔ ’’ابھی انتظار کریں، لائن میں لگیں‘‘۔ اوپر سے بجلی، کے ای ہو یا واپڈا، وہ بھی اس کار خیر میں حصّہ یوں لیتے ہیں کہ فیز چلا جاتا ہے، سسٹم بیٹھ جاتا ہے، سب بینک والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتے ہیں، سسٹم آئے گا تو انگوٹھا دیکھیں گے، ہم بینک کے صارف ہیں، بینک ہمارے پیسوں سے چل رہے ہیں۔ ان کے افسر، عملہ ہمارے ڈپازٹ سے ہی تنخواہ نکالتا ہے۔ ہماری عمر بھر کی بچت مختلف اسکیموں میں لگا کر بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں، بینکوں کی عمارتیں۔ ہمارے پیسے سے ہی بینکوں کے عملے کو مختلف سہولتیں ملتی ہیں۔ مہذّب ترقی یافتہ ملکوں میں صارف کا استقبال مسکراہٹ سے کیا جاتا ہے، سینئر افسر وقت دیتا ہے، پوری بات سنتا ہے، سمجھتا ہے، پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم وقت میں صارف کا مسئلہ حل کرے۔

یہاں آپ کسی بینک میں پہنچ جائیں تو بالکل سرکاری دفتروں والا سلوک ہوتا ہے۔ ماتھے پر تیوریاں، ڈانٹ ڈپٹ والا لہجہ۔ ایک سینئر بینکار سے میں نے اس رویے کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگے کہ زیادہ تر بینکوں میں ایک ایک دو دو سال کے تجربے والے نوجوان ہیں۔ وہ بھی کسی اور بینک میں جانے یا کسی اور شعبے میں شرکت کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو اپنی نوکری کی زیادہ فکر نہیں ہوتی، اس لئے صارفین سے ان کا رویہ غیر دوستانہ ہوتا ہے، ان کا کہنا بجا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ بعض ان پڑھ کھاتے دار یا جن مزدوروں، خاکروبوں کی تنخواہیں بینکوں سے ملتی ہیں ان کے چیک ڈپازٹ پرچیاں، سینئر بینکار اپنے ہاتھوں سے بھر رہے ہوتے ہیں۔ محنت کش بزرگ خاتون یا مرد سے ساتھ ساتھ حال چال بھی پوچھتے ہیں۔ خوشی خوشی ان کا کام کرتے ہیں۔ نوجوانوں میں بہت کم ایسی مہربانی دیکھنے میں آتی ہے۔ آج کل تربیت بھی کاروبار بنی ہوئی ہے۔ تربیت دہندگان (Trainers)کا دَور عروج پر ہے۔ انسانی وسائل کی بہبود کے یہ دعویدار بھی ان اسٹارٹ اپس کو خیال ہم نفساں، صارف سے مہربانی، بزرگوں کا احترام نہیں سکھاتے۔ وہ بھی زیادہ سے زیادہ منافع اندوزی کا درس ہی دیتے ہوں گے۔

جن مہربانوں نے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے، بے نامی کھاتے کھولے ہیں، ان کے پاس تو اسٹاف ہے، وکیل ہیں، اکائونٹنٹ ہیں جو یہ ساری مشقیں کرتے رہتے ہیں لیکن ریٹائرڈ ملازمین، عام چھوٹے تاجر خود ہی بینکوں میں مارے مارے پھررہے ہیں۔ کوئی بزرگ اپنی ضعیف رفیقہ حیات کا ہاتھ تھامے آہستہ آہستہ چلا آرہا ہے۔ کوئی بیٹی اپنی بوڑھی ماں یا دادی نانی کو لے کر آرہی ہے۔ کچھ بزرگ جو زندگی کی دوڑ میں اکیلے رہ گئے ہیں وہ اپنی تنہائی کا بوجھ اٹھائے حاضر ہورہے ہیں۔ انہیں چکر پہ چکر لگوائے جاتے ہیں۔ ذمہ داری اسٹیٹ بینک پر ڈالی جاتی ہے۔ اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، عوام کے سہولت کار ہیں۔ کوئی اپنے پاس سے مینو فیکچرنگ نہیں کررہے، کوئی فصلیں کاشت نہیں کررہے، یہ میرے اور آپ کے پیسے کے امانت دار ہیں۔ ان کو چاہئے کہ کچھ سوچیں، غور کریں۔ حفیظ شیخ، شبر زیدی، باقر صاحب ایسے راستے تراشیں کہ کھاتے داروں کی اکثریت کے لئے ان ضابطوں پر عملدرآمد آسان ہو۔ خاص اوقات مقرر کئے جاسکتے ہیں۔ الگ سے خصوصی کائونٹر کھولے جاسکتے ہیں۔ پرانے کھاتے داروں کے گھر جا کر بائیو میٹرک کیا جائے۔ بینک کاروباری ادارے ہیں۔ انہیں پولیس اسٹیشن نہ بنائیں۔ شبر زیدی صنعت کاروں کے دفتروں پر چھاپوں کے بجائے انکم ٹیکس کے دفاتر پر چھاپے ماریں۔ وہاں رشوت ستانی بند کروائیں۔ سارے پاکستانی دھوکے باز نہیں ہیں۔ جرائم پیشہ نہیں ہیں۔

تازہ ترین