• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے برس شہر کم از کم چالیس دن بند رہا ، ہڑتالوں اور احتجاج کی وجہ سے۔ اس دوران کوئی سوا کھرب روپے کا نقصان ہوا اور سارے سال، انہی وجوہات کی بنا پر کاروباری سرگرمیاں چالیس سے پچاس فیصد تک متاثر ہوئیں۔ شہر میں اسکول بھی بہت زیادہ بند رہے ، یہ آج کا نقصان ہے، کل کا پچھتاوا۔
شہر کئی طرف سے مشکل کا شکار ہے۔یوں تو پورا ملک ادبار کی زد میں ہے۔ دھماکے، دہشت گردی، فرقہ وارانہ کشیدگی، ان سب نے زندگی عذاب کی ہوئی ہے مگر شہر کراچی، جو کبھی عروس البلاد، روشنیوں کا شہر اور ملک کی معاشی رگ ِ جان تھا یا کہلاتا تھا،کچھ زیادہ ہی دباوٴ میں ہے، شدید مشکلات کا شکار ہے۔ آئے دن، واقعہ یا واردات، کہیں اور ہوتی ہے، بھگتنا اس شہر کو پڑتا ہے اور جو وارداتیں یہاں ہوتی ہیں، ان کا خمیازہ تو اسے بھگتنا ہی ہے۔ روز روز کے احتجاج اور ہڑتالیں، کاروبار بند، اسکول بند، یہ اضافی بندش ہے۔ سال کی ہفتہ وار اور سرکاری چھٹیاں الگ اور ان میں حکومت کی مرضی کا اضافہ جدا، چالیس دن کی بندش ان سب کے علاوہ ہے اور ان میں وہ دن شامل نہیں ہیں جب اچانک کسی واردات کی وجہ سے، کسی قتل کے بعد ہونے والے ہنگاموں کے باعث، شہر جزوی طور پر بند کرادیا جاتا ہے، وہ الگ نقصان ہے۔ مختلف علاقوں کی چھوٹی چھوٹی دکانیں بند، یہ دکانیں غریب لوگوں کی معمولی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ بند کرانے والوں کو ان غریب لوگوں سے کیا ہمدردی، انہیں تو اپنی قوت کا اظہار کرنا ہے، بعض دفعہ فوری کارروائی کہ کن علاقوں میں ان کا اثرورسوخ ہے اور بعض مرتبہ پورے دن کی ہڑتال کہ پورے شہر میں اپنی قوت کا مظاہرہ کیا جائے۔ شہر’ غریب الدیار‘ کا سارا کاروبار بند، ساری دکانوں پر تالے۔
جس وجہ سے اس شہر پر ہڑتال کا عذاب تھوپا جاتا ہے، اکثر اس میں شہر کے باسیوں کا قصور ہوتا ہے نہ اس کا تعلق شہر سے ہوتا ہے۔ واردات کہیں اور ہوئی ، ہڑتال یہاں کرادی گئی اور اگر واردات یہاں ہوئی بھی ہو، کوئی بے چارہ کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بن گیا تو اس میں شہر کا، یہاں کے کاروباریوں کا، یہاں کے شہریوں کا کیا قصور؟ انہیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے؟ کبھی کسی نے اس کا اندازہ لگایا کہ ایک دن کاروبار بند ہو تو کتنا نقصان ہوتا ہے؟ کوئی دو ڈھائی ارب روپے کا، ایک محتاط اندازے کے مطابق۔ چالیس پینتالیس دنوں میں سواسو ارب روپے کا نقصان تو دکانداروں اور بڑے کاروباری اداروں کو ہوا۔ متاثرین میں اور بھی بہت سے شامل ہیں، ٹھیلے والے، گلی کوچوں کی دکانوں اور تھڑوں پر سامان بیچنے والے۔ ان کے نقصان کا تخمینہ شاید ہی کسی نے لگایا ہو۔ اندازہ ہوا تو صرف اس دکاندار کو، ٹھیلے اور تھڑے والے کو جس کے گھر کا چولھا نہیں جل پایا، اس کے کچھ ضروری کام رہ گئے، وہ کچھ مزید قرض کے بوجھ تلے دب گیا۔ اُس کے سوا کسی نے اُس کے نقصان کا حساب نہیں لگایا،کیوں لگائے؟ اُس کے نقصان سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ۔ جو ہڑتال کراتے ہیں، احتجاج کر کے شہر بند کرادیتے ہیں، انہیں تو صرف اپنی قوّت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ یہ مظاہرہ دھرنا دینے سے بھی ہوتا ہے اور ہڑتال کراکے شہر کو بند کرانے سے بھی۔ وہ دھرنا بھی دیتے ہیں اور ہڑتال بھی کراتے ہیں اور ان کے کہنے پر شہر بند بھی ہو جاتا ہے۔ یوں دیکھیں تو شہر کئی بااثر تنظیموں، کئی گروہوں کے محاصرے میں ہے۔ ماضی میں یوں بھی ہوا کہ ایک ہی ہفتے میں تین مختلف جماعتوں نے ہڑتال کرائی اور تینوں ہی ہڑتالیں ’کامیاب ‘ رہیں یعنی شہر بند رہا۔ اس’ کامیابی‘ کی وجہ ہڑتال کرانے والوں سے ہمدردی نہیں، ہمدردی بھی ہوگی مگر اصل وجہ خوف ہے، جان کا خوف ،دکان اور کاروبار اگر بند نہیں کیا جائے گا تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، نقصان اٹھانا ہوگا، جان سے ہاتھ بھی دھونے پڑسکتے ہیں۔ سو بہتر ہے کہ دکان پر تالا ڈال دیا جائے، کاروبار بند رکھا جائے کچھ نقصان تو ہوگا مگر ہڑتال نہ کرنے سے کم اور جان بھی بچ جائے، شاید۔
ہڑتال کرانے والوں کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ اگر کسی قتل کے خلاف ہڑتال کرائی گئی تو کیا مجرم گرفتار ہوگئے؟ دوسرے معاملات میں بھی، مطالبات کے حق میں ہڑتال سے کسی گروہ کو، کسی تنظیم کو،کس طرح کا فائدہ ہوا؟ ہڑتال کرانے والوں نے کبھی اس پر غور کیا؟ سنجیدگی سے اپنے اس رویّے کا جائزہ لیا کہ کاروباری اور عام لوگوں کا نقصان کرکے انہوں نے کیا حاصل کیا؟اور دوسری طرف وہ دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز ہیں جو آئے دن بم دھماکہ کرتے ہیں، بے گناہ لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان کی کارروائیاں ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یہ سب قابل مذمت ہیں، دکھ کا باعث ہیں مگر کراچی عروس البلاد، روشنیوں کا شہر(آہ) مستقلاً اپنے شہریوں کی لاشیں اٹھاتا ہے، یہ زیادہ بدقسمت ہے۔ بے تکا محاورہ ہے، غریب کی جورو، سب کی بھابھی۔ اس لئے اسے زیادہ دباوٴ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ملک کے اور بھی شہر ہیں، کیا وہاں ہر افسوسناک واقعے پر احتجاج کرنے کے لئے ہڑتال کرائی جاتی ہے؟ کاروبار بند کرایا جاتا ہے؟ تو صرف کراچی ہی پر سارے زمانے کا دکھ کیوں لادا جاتا ہے؟
گزشتہ سال دو ہزار سے زیادہ لوگ یہاں قتل کئے گئے ہیں۔ عام لوگ بھی تھے،اہم بھی۔ قاتل گرفتار نہیں ہو سکے یا گرفتار نہیں کئے جا سکے اور اگر کوئی گرفتار ہوا بھی تو بااختیار لوگوں نے اسے چھڑالیا۔ ہڑتال کرانے والوں نے اپنے اپنے مرنے والوں کے دکھ میں ہڑتال کرائی، کس نے قاتلوں کی گرفتاری کی کتنی کوشش کی ، نتائج سب کے سامنے ہیں۔ مرنے والوں کا دکھ تو فطری ہے، کسی کے گھر کا چراغ بجھے گا، کسی ماں کا لال خون میں نہلایا جائے گا، کسی بچے کو شفقت کے ہاتھ سے محروم کیا جائے گاتو دکھ تو ہوگا، لواحقین کو بھی، شناساوٴں کو بھی۔ مگر کیا ہڑتال کرانے سے یہ دکھ ختم ہوجاتا ہے؟ کاروبار بند کرانے سے، دکانداروں اور ٹھیلے والوں کو ان کی روزمرہ کی آمدنی سے محروم کرکے کچھ حاصل ہو پاتا ہے؟ کوئی قاتل گرفتار ہوتا ہے؟
ہڑتال کرانے والے شاید ہی اس کا مثبت جواب دے سکیں۔ انہیں بھی قاتلوں کی گرفتاری سے شاید ہی دلچسپی ہوتی ہو، انہیں شاید ہی شہر اور اس کے کاروباری حلقوں سے کوئی ہمدردی ہو۔ اگر ہوتی تو انہیں اندازہ ہوتا کہ پورے سال میں چالیس دنوں کی بندش کے علاوہ، بے یقینی، بے امنی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں کوئی ساٹھ فیصد متاثر ہوئیں، مشکلات کا شکار لگ بھگ تیس چالیس فیصد تاجر اپنی تجارتی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکے ۔ یہ سب اندازے ہیں، کسی نے پورے سال میں ہونے والے نقصانات کا باقاعدہ جائزہ نہیں لیا ۔ جن اداروں کو یہ کام کرنا چاہئے (پتہ نہیں وہ کون سا ادارہ ہے اور ہے بھی یا نہیں!!) انہوں نے اس طرف توجہ بھی نہیں دی۔ کیا یہ سارا معاملہ، یہ نقصان، عام لوگوں کا اور کاروباریوں کا، اس قابل نہیں کہ اس پر توجہ دی جائے؟ اُن لوگوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو اس شہرِ ناپُرساں پر حق کے دعویدار ہیں، ان پر بھی جنہیں اس شہر نے اپنے دامن میں جگہ دی۔ یہ سب اپنے مطالبات کیلئے، اپنے دکھوں کے اظہار کیلئے آواز ضرور بلند کریں مگر اس شہر پر رحم کریں۔ اسے جتنا نقصان ہوگا، بظاہر وہ کسی اور کا ہے کسی دکاندار کا، کسی ٹھیلے والے کا مگر دراصل وہ اس شہر کا نقصان ہے اور انسانوں کی طرح شہر بھی، یاد رہے، بدلہ لیتے ہیں۔ آج اگر کچھ لوگوں کی وجہ سے یہ برباد ہو رہا ہے تو کل جب یہ انتقام لے گا تو اپنی سہولتیں، اپنا روزگار، اپنی آسائشوں سے سب کو محروم کردے گا۔ ہڑتالیں اور احتجاج کرنے والوں کو بھی اور جو اس شہر کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر خاموش رہے انہیں بھی۔
تازہ ترین