• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزادی کشمیر، جذبہ حریت درست، حکمت عملی ضعیف

تحریر:سردار عبدالرحمٰن…بریڈفورڈ
کشمیریوں میں جذبہ حریت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اظہار پاکستان سے پہلے کشمیر کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالئے تو آپ کو آزادی کے پروانوں شہیدوں اور نمازیوں کی ایک لمبی فہرست ملے گی، کشمیر کے سفاک مہاراجوں نے نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا ہر جذبہ استعمال کیا۔ تحریک آزادی کو کچلنے کی کوشش کی ، آزادی وطن کے لئے آواز اٹھانے الوں کو پایا زنجیر کیا عقوبت خانوں میں رکھ کر مشقت کرائی، دھاڑتے ہوئے شیروں کے آگے پھینکا ، زندہ کھالیں کھینچ کر چوراہوں پر لٹکایا گیا۔ تاریخ کا فیصلہ ہے اور قرآن حکیم سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ اللہ کی رحمت اور تائیدان کو حاصل ہوتی ہے جو اپنی جدجہد سے زمانے کا رخ پھیر دیتے ہیں اور حوصلہ رکھتے ہیں اور اپنی آپ مدد کرتے ہیں۔ آزادی پاکستان کے بعد آج تک پاکستانی عوام کشمیریوں کے ساتھ ہیں، 1947میں آزادی کشمیر کی جنگ میں پاکستانی عوام نے دامے، درمے اور قدمے بڑھ چڑھ کر مدد کی، کوئی دوسرا ملک کشمیریوں کی مدد کے لئے نہیں آیا، تقسیم ہند سے پہلے جب قائداعظم کشمیر گئے تو انہوں نے سری نگر کے مقام پر کشمیریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ جموں وکشمیر مسلمانوں کی اکثریت کی ریاست ہے، جہاں تیس لاکھ مسلمان آباد ہیں جن کا ایک خدا ہے ایک رسول ہے۔ ایک قرآن ہے ایک کعبہ ہے لہٰذا ان کو ایک تنظیم میں منسلک ہوکر اپنی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہئے۔ قائداعظم نے مسئلہ کشمیر میں خصوصی طورپر ذاتی دلچسپی لی، آزادی کشمیر کی جنگ میں بھی پاکستانی عوام نے کشمیریوں کے جذبہ حریت پر ہر طریقے سے ساتھ دیا۔ جب آزاد جموں وکشمیر حکومت کی بنیاد رکھ دی گئی، تو اس کے بعد پاکستان کی ہر حکومت نے کشمیریوں کا ساتھ دیا، ابھی پاکستان خود اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا تھا اور طرح طرح کے چیلنجز کا مقابلہ تھا کہ ہندوستان پاکستان کو کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ میں لے گیا۔ پاکستان نے جرات مندی سے دفع کیا اور جس کے نتیجے میں ہندوستان کو زحمت اٹھانا پڑی اور یو این او کی قرارداد میں کشمیریوں کے حق میں پاس ہوئیں، لیاقت علی خان سے لیکر امران خان تک کشمیریوں سے یکجہتی اور برادرانہ ہمدردی کا جذبہ اور تعاون جاری ہے۔ لیاقت خان نے لیاقت باغ کے عوامی جلسے میں اپنا مشہور مکا لہرا کر للکارہ تھا، پھر لیاقت علی خان نے اپنے امریکہ کے دورے میں کئی اہم اداروں اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور حکومتی سطح پر ہونے والے اجتماعات میں کشمیر کو ترجیحی طورپر اجاگر کیا اور گلوبل سطح پر اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی، پاکستان کی حکومتیں چاہیے جمہوری رہی ہیں یا فوجی کشمیر کے بارے میں سب نے یکساں آواز اٹھائی، لیکن حکمت عملی بدلتی رہی اور ہم ان طاقتوں کو ہمنوانہ بناسکے جن کے پاس ایسے مسائل حل کرنے کی کنجی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سلامتی کونسل کے ولولہ انگیز خطاب میں کہا تھا، بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک تو آبادیاتی طاقت قائم کررکھی ہے اور پاکستان ان حالات میں جب کہ کشمیری عوام پر ظلم وستم برپا کیا جارہا ہے خاموش تماشائی کا کردار ادا نہں کرسکتا۔ اب کوئی کشمیری کپواڑہ ، سوپور اور انت نگرمیں خاموشی سے دفن نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ کشمیر کے لئے ایک بڑا جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے۔ جوش وجذبات نیت، ہمدردی ، ولولہ اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی حوصلہ افزائی اور تمام ترنیک خواہشات کے باوجود ریاست کی آزادی کے حصول کے لئے حکمت عملی متنرلزل اور مایوس کن رہی، ہم نے کبھی یو این او کی قراردادوں پہ زور دیا، کبھی دو طرفہ بات چیت کو اہم سمجھا ، کبھی چناب فارمولا آگیا کبھی تاشقذ معاہدہ اور کبھی شملہ معاہدہ کسی نے چھ مل کی تجویز دے دی کس نے بیک ڈور ڈیلو میسی کی وکالت کی اور ثالثی کی تجویز بھی درمیان میں آگئی، ایک اور تجویز آئی کہ ہندوستان اور پاکستان دوتو مل کر ریاست جموں کشمیر کے معاملات کو چلائیں۔ بے نظیربھٹو شہید نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنی ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا میں نے مسئلہ کشمیر کے حل کو اولین ترجیح قرار دیا ہے، پھر حلف اٹھانے کے بعد دوسرے دن سائپرس روانہ ہوئیں تاکہ کامن ویلتھ کے شرکا میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی جاسکے، پھر عمرہ کے موقع پر سعودی عرب اور امارات کے حکمرانوں کو کشمیر کے اندر بھارتی ظلم کی طرف متوجہ کرایا، پھر ایران، ترکی ، چین اور جمہوریہ کوریا سے گفت وشنید میں مسئلہ کشمیر ترجیحی طورپر زیر بحث آیا، لیکن باوجود ان کا وشوں کے ہم طاقتور ممالک کو اپنا ہمنوانہ بناسکے، یہ وہ طاقتیں ہیں جن کے پاس استحقاق امتناع یعنی (Veto) استقبال کرنے کا اختیار ہے یا انہوں خود لے رکھا ہے۔ افسوس کہ مختلف ممالک میں ہمارے سفیر اور ڈپلومیٹس ان ممالک کو کشمیر کے مسئلہ کی حالت اور اہمیت کے بارے میں ستر سالوں کے عرصہ میں آگاہ نہ کرسکے، ان ستر سالوں میں دنیا میں کشمیر سے بہت چھوٹے ممالک حق خود ارادیت حاصل کچرکے ہیں۔ ہماری ناکامی اظہرامن الشمس ہے، ہم نے مقبول اور مروج تقریروں ، جوش وخروش، شعلہ بیاتیوں، شاہ سرخیوں اور قرسودہ بیانات پر اپنی انرجی ختم کی، ہم نے اپنوں میں بیٹھ کر اپنوں کے سامنے وہی پرانے گھسے پٹے نعرے دہرائے ہمارا دشمن ایک مکار اور ہٹ دھرم ملک ہے، نہرو نے پاکستان کے آیڈیا کو ایک دیوانے کا خواب قرار دیا تھا، اور جب پاکستان معرض وجود میں آگیا تو ہندوستان نے اس کی جڑیں کاٹنا شروع کردیں، امریکی سابقہ صدر نکسن اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے دور حکمرانی میں اندرا گاندھی سے پاکستان پر حملہ نہ کرنے تلقین کی اور اس نے سنجیدگی سے یقین دلایا کہ ہندوستان کا ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ جب وہ مجھ سے پاکستان پر حملہ نہ کرنے کا وعدہ کررہی تھی اس کی فوج پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاری کررہی تھی، صدر نکسٹن نکھتا ہے کہ میں نے اندر اگاندھی سے زیادہ کوئی سیاست دان مکار نہیں  دیکھا۔ عرصہ ستر سال گزرجانے کے بعد اب مسئلہ کشمیر کی نوعیت اور تاریخی پس منظر دنیا میں اجاگر ہوچکا ہے اور دنیا کی تاریخ میں یہ مسئلہ ایک اہم مسئلہ کی حیثیت سے درج ہوچکا ہے۔ کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں گینس بک آف ریکارڈ میں مسئلہ کشمیر کو ایک نہایت ہی خطرناک گلوبل مسئلہ قرا ردیا ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ کو دنیا کو خبر ہے اصل بات اس مسئلے کے جل کی حکمت عملی اور بڑی طاقتوں کی عدم دلچسپی ہے گلوبل نشریاتی ادارے کشمیر کو مکمل بھول چکے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں روزانہ جوان قتل کئے جارہے ہیں بین الاقوامی نشریاتی ادارے ایک سطری ذکر تک نہیں کرتے۔ ہماری (Lobby)نہ اس سمت میں کام کر رہی ہے نہ پانچ بڑی طاقتوں کی حمایت ہے یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک بڑی طاقتیں نیک نیتی کے ساتھ اس مئلے کے حل میں تعاون نہیں کرتیں، استصواب رائے سے ہندوستان وعدہ کرکے متحرف ہوچکا(States quo)یعنی جوں کا توں کوئی حل نہیں ہے، سابق وزیراعظم برطانیہ ٹونی بلیئر اپنی سوانح حیات میں لکھتا ہے کہ کشمیر مسئلہ ثالثی کے ذریعے حل ہوسکتا ہے۔ دنیا کے کئی دوسرے ممالک کہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان خود ہی گفتگو سے حل نکالیں، لیکن جب دومتحارب ممالک آپس میں کھیل کے میدان میں اکھٹے ہونے کو تیار نہیں تو کشمیر جیسے مسئلہ پر اکھٹے کیسے بیٹھ سکتے ہیں ہندوستان ہٹ دھرم ہے آج تک کہہ رہا ہے کہ کشمیر(Negoliable) نہیں ہے اور ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہوچکا صرف آزاد کشمیر کا مسئلہ ہے یو این او کی قراردادوں کو دنیا کے سامنے مان کو منحرف ہورہا ہے۔ ہندوستان کا رویہ کبھی سخت اور جارحانہ ہے دو دفعہ پاکستان کو بین الاقوامی نورمز پر لے جاچکا ہے ایک دفعہ اقوام متحدہ میں اور دوسری دفعہ بین الاقوامی عدالت میں پاکستان صرف اپنادفاع کراتا ہے حالانکہ کئی دفعہ ایسے مواقع آئے کہ ہندوستان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی کشمیر میں نسل کشی ہورہی ہے کیا بین الاقوامی ادارے ہمارے لئے ممنوع ہیں یا ہماری خود حکمت عملی میں کمزوری ہے، جب بھی کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان سے بات کا ذرا بھی موقع ملتا ہے تو ہندوستان کوئی سانحہ سٹیچ کرادیتا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ پرانی پالیسی کو ترک کرکے نئی اکیسویں صدی کی پالیسی اختیار کی جائے، دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کو ہمنوا بنایاجائے، دنیا کے نشریاتی اداروں کی توجہ حاصل کی جائے، کہنہ مشق تجربہ کار اقوام متحدہ کے سابقہ سفیروں کی ایک کمیٹی بنا کر دنیا کے اہم ممالک میں بھیجی جائے اور اقوام متحدہ کے نمائندگان کی (Lobbying)کی جائے، بین الاقوامی طورپر رابطہ افسران کو تعینات کر کے کشمیریوں کی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرائی جائے، اب یہ مسئلہ اجاگر ہونے سے آگے نکل چکا ہے اب حل کی طرف توجہ دینی ہوگی، اب تمام دنیا اس مسئلہ کو سمجھتی ہے اور جانتی ہے لیکن ہندوستان اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ اقوام متحدہ ایک بااثر فورم ہے جہاں دنیا کے نمائندگان بیٹھتے ہیں پانچ بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ہے ان کی حمایت اشد ضروری ہے، افسوس یہ ہے کہ (merit)پر فیصلے نہیں ہوتے مفادات پر نظر رکھی جاتی ہے۔
تازہ ترین