• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قلمکار و کلاکار، امن کے سفیر، خواب ہمارے جنگی قیدی

برصغیر ہندو پاک میں شیخ ایاز شاید واحد شاعر و ادیب تھے جنہوں نے ان دونوں ملکوں کے بیچ امن سے محبت اور جنگ سے نفرت کے گیت لکھتے ہوئے قید و بند کی کئی بار صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ 1965ء کی جنگ کے دوران جب شیخ ایاز نے ہند میں اپنے ہم عصر سندھی شاعر اور دوست نارائن شیام کے نام اپنی مشہور سندھی نظم لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہوگا:
یہ سنگرام
میرے سامنے ہے نارائن شیام
اس کے میرے قول بھی اک سے
بول بھی اک سے
وہ کوتا کے محل کا راجہ
میرے رنگ رتول بھی اک سے
دیس بھی اک سے ڈھول بھی اک سے
میں اس پہ بندوق کیسے تانوں
اس کو گولی کیسے ماروں!
بس اس نظم کا لکھا جانا تھا کہ اس وقت دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ادیبوں لکھاریوں اور ایک مذہبی سیاسی جماعت کے کارکنوں نے شیخ ایاز کی اس نظم کو اردو ترجمے کے ساتھ ایک پوسٹر کی صورت چھپوا کر پورے سندھ کے شہروں کی دیواروں پر راتوں رات چسپاں کر دیا۔ شیخ ایاز پر ملک کے ساتھ غداری کے الزامات اور کفر کے فتوے لگے اور انہیں ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ وہ پاک بھارت جنگ کے دوران اپنے ساتھی سوبھو گیان چندانی کے ساتھ جیل میں نظربند رہے تھے لیکن شیخ ایاز نے دوران جنگ نظربندی بھی اپنی تخلیقات جاری رکھیں اور جیل میں ہونے والے بلیک آؤٹ پر ایک اور نظم میں کہا تھا:
بمباری کے خوف سے بجلی
ہے ہر روز بجھائی جاتی
پر کھولی پر جو چاند ہے نکلا
اس کو کون بجھا سکتا ہے
اس کو کون بجھائے گا پھر
شیخ ایاز 1965 اور پھر 71 کی دونوں پاکستان بھارت جنگوں کے دوران نظر بند رہے انکے تب چھوٹے بچوں کو اسکول کے ساتھی غدار کی اولاد کہتے اور گھر پر پتھر بھی پھینکے جاتے، اسطرح شیخ ایاز شاید امن کی آشا کی پہلے پیامبر تھے۔
شاعر اور ادیب قوموں اور ملکوں کے درمیان پیار کی پل اور محبت کے سفیر ہوا کرتے ہیں اور اس ملک پاکستان کی قومی زبانوں میں (میری دانش میں تو سب لکھی پڑھی اور بولی جانے والی ساری زبانیں جن کی اپنی دھرتی و ثقافت ہے قومی زبانیں ہی ہیں) ادباء، لکھاریوں، شاعروں اورکن صحافیوں نے دونوں ممالک یعنی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان محبت اور امن قائم کرنے کی اپنی بے وسیلہ و بے سرو سامانی کی کوششوں میں بہت کچھ برداشت کیا ہے، یہاں تک کہ قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں بھی۔
اور اب کھلاڑیوں اور فنکاروں کے بعد پاکستان سے بھارت کے جے پور کے ادبی میلے یا جے پور لٹریچر فیسٹول میں شرکت کرنے والے پاکستانی لکھاریوں اور شاعروں کو جس طرح 'سیکولر' بھارت کے ہندو و مسلمان طالبان مائنڈ سیٹ کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا ہے اس سے دوریوں کی دیواریں اور اونچی اٹھ جائیں گی۔ ایک دوسرے کے تھوڑا بہت قریب آنے کی راہیں اور مسدود ہوجائیں گی۔ فیض کے لفظوں میں تیری راہوں میں شام ستم اور بھی گھل جائے گی۔ بات سے بات نہیں بنے گی،رات سے رات طویل ہوتی جائے گی،کشیدگی کے بادل جنگ کی سرخ آندھی ہی لائیں گے۔
ابھی اس ڈاکٹرائن کہ اصل دشمن پاکستان کے اندر انتہاپسند شدت پسندی ہے کے اعلان نامے کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ لائن آف کنٹرول پر سپاہیوں کی لاشیں گرنا شروع ہوئیں۔ مجھے پاکستان اور بھارت دونوں کی دشمنیوں کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ۔
یہ سیفما کے وجود میں آنے سے بہت پہلے کی بات ہے جب صحافیوں کو صرف بھارتی یا پاکستانی سفارتخانے میں جانے پر عقوبتیں سہنی پڑتی تھیں۔ بھارتی صحافی اگر دوسرے ملک کے میڈیا کے دفتر میں غلطی سے بھی آ جائے تو انکوائریاں مہینوں مہینوں چلا کرتی تھیں۔ اس ملک میں عاصمہ جہانگیر کی بھارت میں رقص کرنے کی تصاویر اب بھی پاکستانی میڈیا کے ایک حصے میں بے ہودہ کیپشنز کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں کیونکہ آرمی ہاؤس راولپنڈی کی چھت پر صرف شتروگھن سنہا کے بچے ہی کھیل سکتے تھے۔ والپرٹ کی لکھی ہوئی جناح کی غیر سنسر شدہ سوانح عمری کی کاپی اور اسکاچ صرف خشونت سنگھ کو تحفوں میں دی جا سکتی تھیں مگر جب لاہور میں امن کی سرگرم کارکن سیدہ دیپ نے نیوکلیائی خطروں سے پاک جنوبی ایشیاء کیلئے دہلی سے لاہور تک امن مارچ کرنے کی بات کی تو خفیہ والوں نے اس کے گھر کے احاطے میں جاکر ڈیرے ڈال کر اس کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ گوتم پبلیشر کے ایمانوئیل کو عقوبت خانوں سے گزرنا پڑا کہ ایک تو اس کا نام ایمانوئیل تھا پھر اس کے تھیلے سے پرویز ہود بھائی کی نیوکلیئر پر ان کے نقطہ نظر پر مبنی 'تخریبی مواد' بر آمد ہوا اور تیسرا اس کے اشاعت گھر کا نام 'گوتم پبلیشرز' تھا! ایسا بھی نہیں کہ ہندوستان میں کوئی پاکستان سے آنے والے لکھاریوں اور امن کے مسافروں کو ایسے دنوں میں گلدستے پیش کئے جاتے ہیں۔ کس نے جانا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے دوران بھارت میں جلاوطنی کے آٹھ سال گزارنے والی شاعرہ فہمیدہ ریاض جس نے جلاوطنی کے دوران جنم لینے والے اپنے بیٹے کا نام عظیم شاعر کبیر کے نام پر رکھا تھا کے ساتھ بھارت میں مشاعرے کے دوران ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے جس بدتمیزی کا مظاہرہ کیا جائے گا یا حال ہی میں جو عابدہ پروین اور پاکستان کے کھلاڑیوں کے ساتھ ہوا ہے وہ کسی بھی صورت میں بھارت کے سیکولر ہونے کا تصور ذہن میں نہیں ابھرنے دیتا۔
جسونت سنگھ جیسے کھرے سیاستدان نے نیویارک میں کہا تھا کہ جناح اور تقسیم پر ان کی کتاب میں جناح کے سیکولر ہونے کی تعریف کرنے پر اسے صرف پارٹی سے نکالا گیا اسے زندہ بھی جلایا جا سکتا تھا کون کیا کرسکتا تھا!
1950ء کے عشرے میں پیارے پاکستان میں "آگ کا دریا" ناول لکھنے پر قرة العین حیدر سے بھی کیا جانے والا سلوک کوئی مختلف نہیں تھا ۔جواہر لال نہرو اور اس وقت کی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کاش استاد دامن کی بات سمجھ لیتی ۔
"لالی اکھاں دی پئی دسدی ہے
روئے تسی وی ہو روئے اسان وی آں"
جیسے ساری زندگی جلاوطنی جیسے روحانی کینسر میں گزارنے والے سندھی ادیب اور افسانہ نگار موہن کلپنا نے اپنے ناولٹ 'جلاطنی' میں لکھا ہے "وہ لسی جو کوٹری کے ریلوے اسٹیشن پر فروخت ہوتی تھی اس کا ایک ایک گلاس اگر نہرو اور جناح نے پیا ہوتا تو کبھی بٹورا نہ ہوتا" مگر کل شام میرا ایک دوست مجھ سے کہہ رہا تھا کہ کاش گاندھی جناح کی یہ تنبیہ مان لیتے کہ تحریک خلافت کی حمایت کرنے سے وہ ہندوستانی سیاست میں مذہبیت کو داخل کر رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ پاکستان میں آج بھی کہیں کہیں جمعہ کے خطبے میں ترکی کے خلیفہ کی درازیٴ عمر کی دعا مانگی جاتی ہے۔کاش ہندوستان کا اقتدار اورنگزیب کے بدلے دارشکوہ کو ملتا تو برصغیر کا یکسر نقشہ مختلف ہوتا۔ساحر لدھیانوی روز روز کے چھاپوں سے چھپتے پھرتے تنگ آکر بھارت جاکر عظیم شاعر بنا لیکن کتنے لوگ سندھی ادیبوں گوبند مالہی، حشو کیولرامانی اور عظیم سنت اور درویش سادھو ٹی ایل واسوانی کو جانتے ہیں جن کو زبردستی ملک بدر کر کے ہندوستان جانے پر مجبور کردیا گیا۔ سابق طالب علم رہنما اور سیاسی کارکن گھنشیام پرکاش تو چند سال پہلے کی بات ہے۔
ایاز! سندھ میں کسی مہاجر پر ہاتھ مت اٹھانا کیونکہ میں بھی ہند میں مہاجر ہوں" شیخ ایاز سے ان کے بھارت کے دورے کے دوران ملاقات میں حشو کیولرامانی نے کہا تھا۔ عظیم درویش سادھو ٹی ایل واسوانی1948ء تک کراچی میں تھے انہوں نے جناح صاحب کی وفات پر بھرت رکھا تھا یعنی فاقہ کیا تھا اور قرآن کی تلاوت کی تھی۔ بعد میں ایسے عظیم دوریش کو بھی اپنا وطن چھوڑ کر ہند جانے پر مجبور کیا گیا۔موتی پرکاش 1980ء کی دہائی میں پاکستان آئے تھے اور ان کو دیئے جانے والے ایک استقبالیہ میں انہوں نے کہا تھا کہ ویسے تو بھارت اور بمبئی کے درمیان ڈیڑھ سوا گھنٹے کا فاصلہ ہے لیکن ان کو یہ فاصلہ طے کرنے میں 35 برس لگ گئے۔
میں کہتا ہوں کہ دونوں دیسوں کے درمیان ایک دوسرے کے ادیبوں، کھلاڑیوں، فنکاروں، لکھاریوں، شاعروں کو ڈرانے دھمکانے، ہراساں کرنے کے نتیجے میں یہ بڑی مشکل سے حاصل کی ہوئی قربتیں نہ جانے کتنے برس پیچھے چلی جائیں۔ بقول میری ایک دوست کے کہ خوابوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہوتا۔ کاش لتا منگیشکر پاکستان کا دورہ کریں (کہ میں نے آج تک کسی پاکستانی کو لتا منگیشکر کو برابھلا کہتے نہیں سنا) تو شاید دنوں ملکوں کے موجودہ تعلقات کا نقشہ ہی بدل جائے۔خواب ہوں گر آزاد تو پھر کیا چاہئے، شیخ ایاز نے کہا تھا۔ شیخ ایاز نے یہ بھی کہا تھا: خواب ہمارے جنگی قیدی جن پر فاتح تھوک رہے ہیں۔
تازہ ترین