• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بدھ کے روز فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں ماڈل کورٹس کے ججوں سے خطاب کے دوران مختلف شعبوں کے حوالے سے اندرون ملک، ارد گرد کے حالات، خطے کے معاملات یہاں تک کہ عالمی اہمیت کے حامل ذرائع سے آنے والی خبروں کا جو ذکر کیا وہ اس دردمندانہ سوچ کا مظہر ہے جو ہر محبِ وطن پاکستانی رکھتا ہے۔ چیف جسٹس اسی خطاب میں جس وقت یہ کہہ رہے تھے کہ ملک میں عدلیہ کے سوا کوئی اچھی خبر نہیں تو ان کا اشارہ لطیف انداز میں ایسی اچھی خبر کی طرف تھا جو پاکستانی عوام کے ملک میں بے لاگ، انصاف کا دور دورہ دیکھنے کی امنگ کے عین مطابق ہے کیونکہ بدعنوانی، کرپشن، میرٹ کی پامالی، قومی خزانے کی چوری، دہشت گردی، قتل و غارت اور رہزنی سمیت ظلم و بربریت کی ہر صورت کے پھیلائو کیلئے ایسی زمین اور فضا درکار ہوتی ہے جس میں انصاف کا فقدان ہو۔ ماڈل کرمنل کورٹس کی توقع سے بڑھ کر کارکردگی اور مستقبل میں مقدمات کے التوا اور جھوٹی گواہی کسی صورت قبول نہ کئے جانے کے اعلیٰ عدلیہ کے عزم نے عام آدمی کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ جس معاشرے میں سانس لے رہا ہے وہ پستیوں سے نکلنے کیلئے کوشاں اور عروج کے سفر کی طرف گامزن ہے۔ جب کوئی معاشرہ کمزوری اور عدم استحکام کی سمت بڑھتا ہے تو کسی دیدہ ور کی آمد یا کسی طوفانی کیفیت کی اضطراب انگیزی یا سمت سفر کی درستی کا یقین اسے وہ اضافی طاقت مہیا کرتا ہے جو حصول منزل کی لازمی ضرورت ہے۔ فاضل چیف جسٹس کی درد مندانہ گفتگو نے جس اضطراب کی نشاندہی کی وہ اضطراب ہی عدلیہ کی طرف سے آنے والی اس اچھی خبر کا ذریعہ بنا ہے کہ فوجداری ماڈل کورٹس نے 48دنوں میں 5800مقدمات کے فیصلے کئے۔ قتل اور منشیات کے مقدمات کے جلد فیصلے کرنے میں ماڈل کرمنل کورٹس کی کارکردگی توقع سے کہیں آگےبڑھ کر ہے۔ اب سول فیملی، خواتین، بچوں، کرایہ اور مجسٹریٹ کی ماڈل عدالتیں بنائی جارہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ آئین کے آرٹیکل 37(ڈی) کے تحت عوام کو سستا اور تیز رفتار انصاف مہیا کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے مگر یہ آرٹیکل تو پہلے بھی کتاب آئین میں موجود تھا۔ عدلیہ میں نئے زاویوں، جہتوں اور مثالیوں کے ساتھ آج جو کارکردگی نظر آرہی ہے وہ اسی درد مندانہ سوچ کا نتیجہ ہے جس کا اظہار فاضل چیف جسٹس کے خطاب سے ہوتا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے دور میں پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے نئے ڈیموں کے حوالے سے جو پہل کاری ہوئی وہ بھی اسی دردمندانہ سوچ کی مظہر ہے۔ اس اضطراب، جذبے اور سوچ کو حکومتی اور عوامی سطح پر نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بیان کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت 2019کی 100کے قریب اپیلیں ہی زیر التوا ہیں۔ بلاشبہ یہ انتہائی حوصلہ افزا پیش رفت ہے اور یہ توقعات بے محل نہیں کہ وہ دن جلد آئے گا جب یہاں ایک بھی فوجداری اپیل زیر التوا نہیں ہوگی۔ اس ضمن میں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ نظام انصاف میں فوجداری اور سول مقدمات کی صورت میں دو اہم شعبے ہیں۔ سول مقدمات میں فریقین اپنے گھروں میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں جبکہ فوجداری مقدمات میں ملوث ملزمان سالہا سال تک جیل میں بند رہتے ہیں جن میں سے متعدد ملزمان کے بیوی بچوں کو کوئی ذریعہ آمدن نہ ہونے کی بنا پر انتہائی مشکل زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ اس لئے نیشنل جوڈیشیل پالیسی میکنگ میں فوجداری مقدمات کا نظام پہلے درست کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چیف جسٹس کے خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئے ماڈل کورٹس کے قیام کا عمل تیز کر کے انہیں بتدریج ملک بھر میں پھیلایا جائیگا۔ فراہمی انصاف کا عمل تیز ہونے سے قانون شکنی میں دیدہ دلیری کے رجحانات ختم کرنے، ٹیکس گریزی کی روک تھام کرنے اور تقرریوں میں میرٹ کو نظرانداز کرنے کے موجودہ طریقوں کی حوصلہ شکنی میں مدد ملے گی۔ نظام انصاف پر عوام کا اعتماد ہی رائج الوقت نظام پر عوام کے اعتماد کو قائم اور مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

تازہ ترین