• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ایک دو مہینوں میں کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب غروب ہو گئے جس سے قحط الرجال کا شدید احساس ہونے لگا ہے۔ وہی معاشرے زندہ رہتے اور ترقی کرتے ہیں جن میں رجال الرشید کی بہتات ہوتی ہے جو زندگی کا توازن قائم رکھتے اور اپنے کردار سے مستقبل کے امکانات روشن کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان جو بائیس کروڑ نفوس کا ایک عظیم الشان ملک ہے، اِس میں خیر اور شر کے درمیان کشمکش جاری ہے اور کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نیکیوں بھری زندگی بسر کرنے کی تمنا رکھتے اور اعلیٰ روایات کے گلزار کِھلائے رکھتے ہیں۔ اِن میں ایسی ہستیاں بھی ہیں جنہوں نے غربت میں آنکھ کھولی، مصائب کی آغوش میں تربیت پائی اور بے سروسامانی میں اپنے لئے بھی کامرانیوں کی ایک دنیا آباد کی اور دوسروں کو صراطِ مستقیم پر چلتے رہنے کا حوصلہ دیا، وہ ہمارے رول ماڈل بنے۔ میں ایسی چند ہستیوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ محسنوں کو یاد کرتے رہنے سے قوم تروتازہ رہتی اور تاروں پر کمند ڈالنے کا شوق جگائے رکھتی ہے۔

مجھے جناب ادریس بختیار بےاختیار یاد آ رہے ہیں جن کا رمضان کے مقدس مہینے میں انتقال ہوا ہے۔ اُن کا تعلق صحافت سے تھا۔ اُنہوں نے یہ پیشہ خوب سوچ سمجھ کر اختیار کیا تھا کہ وہ اُن کے نزدیک شہادتِ حق دینے، عوام کی آواز بلند کرنے اور بےلگام حکمرانوں کا احتساب کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ تھا۔ اُن کے والد محمد ہارون الرشید بختیار اجمیر شریف میں آل انڈیا مسلم لیگ میں بہت فعال تھے اور انگریز حکومت نے اُن کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیے تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا تو وہ اپنی اہلیہ اور تین برس کے بیٹے ادریس بختیار کے ہمراہ حیدرآباد آ گئے۔ یہاں پہنچ کر اُنہیں شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی اہلیہ نے گھروں اور بیٹری کے کارخانوں میں کام کر کے خاندان کا پیٹ پالا۔ ادریس بختیار کے والد ایوب خانی آمریت کے دور میں گرفتار ہوئے، تو چودہ سالہ بیٹے نے پکوڑے، آلو چھولے اور ٹافیاں فروخت کر کے گھر کے اخراجات پورے کیے اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ سندھ یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا اور اِس کے بعد حیدرآباد کے ایک روزنامہ ’انڈس ٹائمز‘ سے بطورِ پروف ریڈر وابستہ ہو گئے۔ وہ ستاون برس تک صحافت کے پیشے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے اور اپنی دیانت، ذہانت اور غیرمعمولی جرأتِ اظہار کی بدولت ایک ایسے مقام تک پہنچ گئے جہاں اُن کی رائے کو بڑے بڑے ایڈیٹر غیرمعمولی اہمیت دیتے تھے۔ ’ہیرالڈ‘ میں سالہا سال تک اُن کی کور اسٹوریز شائع ہوتی رہیں جو تحقیق کی نہایت عمدہ شاہکار کا درجہ رکھتی تھیں۔ اِسی طرح روزنامہ ’ڈان‘ میں اُن کے کالم بیرونی دنیا میں بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے رہے۔ وہ اپنی آخری عمر میں جیو ٹی وی کی ایڈیٹوریل کمیٹی کے اہم رکن تھے۔ اُنہوں نے جس ادارے میں بھی کام کیا، ایک اچھا نقش چھوڑ کر آئے۔

میری اُن سے پہلی ملاقات اکتوبر 1968کے لگ بھگ حیدرآباد کے نیاز آڈیٹوریم میں ہوئی جہاں اسلامی جمعیت طلبہ کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا تھا جس میں مشاعرے کا بھی اہتمام تھا۔ منتظمین نے مجھے بھی دعوت دی تھی چنانچہ وہاں میں نے اپنی تازہ غزل سنائی تھی جس کا مطلع تھا ؎

قحطِ آشفتہ سراں ہے، یارو

شہر میں امن و اماں ہے، یارو

اور مقطع تھا ؎

تیرے الطافؔ کا دھندلا سا وجود

صُبحِ صادق کا نشاں ہے، یارو

اِس اجتماع کے بعد طلبہ پورے ملک میں صدر ایوب خاں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

ادریس بختیار سے پہلی ملاقات ایک ایسے رشتے میں ڈھل گئی جو اُن کی زندگی کے بعد بھی قائم ہے۔ وہ ایک نظریاتی شخص تھے اور میری طرح سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے انقلاب آفریں افکار اور اُن کی عظمتِ کردار سے حددرجہ مثاثر تھے مگر اُنہوں نے نظریاتی وابستگی اور انسانی رشتوں کے مابین ایک توازن قائم رکھا۔ اُن کے روابط دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ساتھ بھی تھے اور بائیں بازو کے صحافیوں اور سیاستدانوں کے ساتھ بھی۔ اُن کے قریب ترین دوست روزنامہ ڈان کے ظفر عباس تھے جو اُن سے یکسر مختلف نظریات رکھتے تھے۔ قریبی حلقے شہادت دیتے ہیں کہ جن دنوں ڈان لیکس کا بڑا چرچا تھا اور اربابِ حکومت کو عتاب سے بچنے کے لئے جناب پرویزرشید، راؤ تحسین علی خاں اور جناب طارق فاطمی کی قربانی دینا پڑی تھی، اس وقت ادریس بختیار، جناب ظفر عباس کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے کہ اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچنے پائے۔

ادریس بختیار اپنی پوری صحافتی زندگی میں دائیں بازو سے وابستہ رہتے ہوئے یونین کی سیاست میں حصہ لیتے رہے مگر میانہ روی اور مفاہمت کو اپنا اصول بنائے رکھا۔ کراچی پریس کلب جو غیرمعمولی اہمیت کا حامل ادارہ ہے، اس پر طویل عرصہ تک بائیں بازو کا قبضہ رہا۔ ادریس بختیار نے وہاں کی یونین سازی میں حصہ لینا شروع کیا تو تمام صحافیوں کو اِس بات کا قائل کر لیا کہ وہ لان میں بیٹھ کر معاشرتی آداب کا خیال رکھیں گے۔ اُن کی مصالحانہ کوششوں سے کراچی پریس کلب کا ماحول بڑی حد تک تبدیل ہو گیا ہے۔

ادریس بختیار کی سب سے بڑی عظمت اُن کی اصول پسندی، حق گوئی، غیر جانبداری اور بلا کی قناعت پسندی تھی۔ جب پورا کراچی ایم کیو ایم کی سفاکانہ گرفت میں تھا تو اصل حقائق جاننے کے لئے ملکی اور غیرملکی نمائندے اُن سے رجوع کرتے۔ وہ اپنی تمام تحریروں میں کمال جرأت و بےباکی سے صورتِ حال بیان کرتے اور کسی قسم کے خوف کو خاطر میں نہ لاتے۔ وہ شخص جس کے پرستاروں کا دائرہ بہت وسیع تھا، اُس نے اپنی پوری زندگی چار پانچ مرلے کے گھر یا فلیٹس میں گزار دی اور اپنے نفس کو پوری طرح قابو میں رکھا۔ اِس امتحان میں بڑے بڑے پارسا ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہ نوجوان صحافیوں کی راہنمائی میں بڑی فراخ دِلی سے کام لیتے رہے۔ سچ یہ ہے کہ وہ اعلیٰ انسانی اوصاف کا قابلِ تقلید نمونہ تھے۔ اُن کے جنازے میں ہر طبقۂ فکر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اُن پر اخبارات و جرائد میں کالم لکھے جا رہے ہیں۔ میں آگے چل کر اُنہی کے قبیل کی عظیم شخصیتوں مہر جیون خاں، ملک مقبول احمد اور رحمت علی رازی کی عظمتوں کا ذکر کروں گا کہ وہ خاک نشینی سے عرش نشینی تک پہنچے اور قوم کو حیاتِ نو کا پیغام دے گئے ہیں۔

تازہ ترین