• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی ترقیاتی کونسل کا مقصد تمام اسٹیک ہولڈرز میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے‘حماد اظہر

کراچی(نیوز ڈیسک)وزیر ریونیو حماد اظہر کا کہنا ہے کہ قومی ترقیاتی کونسل کا مقصد تمام اسٹیک ہولڈرز میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔جب کہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ یہ سب حکومتی تجربے اور اہلیت سے آگے کی باتیں ہیں اس لیے کسی سمجھدار کو شامل کیا گیا ہے۔تفصیلات کے مطابق،بڑھتے ہوئے ادائیگیوں میں توازن کے بحران ، روپے کی گرتی ہوئی قیمت اور گزشتہ پانچ سال کی ریکارڈ مہنگائی کے تناظر میں رواں ماہ پاکستانی افواج نے اپنے بھاری بھرکم بجٹ میں کمی کی تاکہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دے سکے۔فوجی افسران، سینئر سرکاری عہدیداران اور ماہرین کے مطابق معیشت کی بحران سے نبردآزما صورت حال نے فوج کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کردیا ہے اور الگ تھلک رہ کر گرتی معیشت کودیکھنے کا وقت گزرچکا ہے۔منگل کے روز حکومت نے قومی ترقیاتی کونسل(این ڈی سی)کا اعلان کیا جوکہ ملک کی طویل مدتی اقتصادی پالیسی کا تعین کرے گی۔جس کے ارکان میں آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شامل ہیں۔پاکستان میں انتخابات کے بجائے بغاوت سے حکومتیں تبدیل کرنے کا رجحان رہا ہےاور روایتی طور پر قومی سلامتی کے معاملات پر سول حکومتیں جنرلوں کی تابع رہی ہیں۔تاہم، ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ فوج کو معیشت کے حوالے سے باضابطہ طور پر سیٹ دی گئی ہے۔وزیر ریونیو حماد اظہرنے ایک خلیجی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ نئی کونسل کے قیام کا مقصد تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے کہ حکومت کے علیحدہ ونگز چاہے وہ ایگزیکٹو ہوں، کابینہ ، پارلیمنٹ یا فوج وہ ایک صفحے پر نہ ہوں ، ایک دوسرے کی جڑیں کاٹیں یا ایک دوسرے کے خلاف کھیل کھیلیں۔ان کا کہنا تھا کہ حتمی فیصلہ وزیر اعظم کریں گے۔حماد اظہر کا کہنا تھا کہ یہ بات غیر منطقی ہے کہ ماضی میں فوجی بغاوتوں کی وجہ سے اب حکومت فوج کو ہر مشاورتی عمل سے باہر کردے۔ان کا کہنا تھا کہ چاہے کسی کو یہ بات پسند آئے یا نا آئے پاکستان کے بجٹ میں فوج کا ایک بڑا حصہ ہے۔اس لیے اقتصادی مسائل سے فوج براہ راست متاثر ہورہی ہے۔پاک ۔فوج طویل عرصے سے طالبان شدت پسندوں سے نبردآزما رہی ہےجو کہ فوج اور سویلین کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔اب سیکورٹی صورت حال میں بہتری آئی ہے تاہم شدت پسند اب بھی محدود کارروائی کررہے ہیں۔مشرق میں پاکستان کے پڑوسی بھارت سے تعلقات بھی تنائو کا شکار ہیں ۔جب کہ مغرب میں افغانستان کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہے۔قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بھارت کے ساتھ تین جنگیں ہوچکی ہیں ۔جب کہ حال ہی میں اس تنائو میں شدت بھی دیکھی گئی۔سیکورٹی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ حکومت ، فوج سے بھی رائے لے اور انہیں اپنا مدعا بھی بتائے۔آئی ایس پی آر نے اس ضمن میں کوئی رائے دینے سے انکار کیا تاہم، ایک فوجی عہدیدار کے مطابق، معیشت سے فوج کا گہرا تعلق ہے اور اسے اپنی رائے دینے کا حق ہے۔اس ادارے کے سبب ہم اپنا موقف بہتر انداز میں بیان کرسکتے ہیں۔اس ضمن میں ہم حکومت، کابینہ کو تجاویز دے سکتے ہیں اور وہ اسے جب چاہے قبول کرسکتی ہے۔ماہرین اور عہدیداران کا کہنا تھا کہ ادارے کے اختیارات اور مینڈیٹ تاحال واضح نہیں ہے۔اس حوالے سے اپوزیشن رہنما مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ سب حکومتی تجربے اور اہلیت سے آگے کی باتیں ہیں اس لیے کسی سمجھدار کو شامل کیا گیا ہے۔
تازہ ترین