• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میڈیا، اخباروں اور دیگر انگریزی اور اردو کے میگزین میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے "Celebrity"۔ آج سے چند سال پہلے تک یہ لفظ، معزز دانشوروں، لکھنے والوں، فلسفی اور سائنسدانوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اب جب سے عید، تہوار اور قومی دنوں پر میڈیا میں پروگرام ہوتے ہیں تو ہر بار چار صوفے رکھ کر ٹی وی اسٹارز کو بٹھا کر صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام کردی جاتی ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر کل کے چھوکروں اور چھوکریوں کو جنہوں نے ابھی اپنا کوئی مقام طلعت حسین یا قوی خان کی طرح عمر کی عرق ریزی کے بعد دنیا بھر میں کمایا ہے، ان کو بھی کبھی کبھی کسی gapمیں بلا لیا جاتا ہے۔ البتہ مشتاق یوسفی سے لے کر انتظار حسین یا انور سجاد پر خبروں میں تذکرہ کرکے چھٹی کردی جاتی ہے۔ اسی طرح اونگے بونگے ڈیزائنر کو ایسے پروموٹ کیا جاتا ہے کہ کبھی صحافیوں کی عقل پر پردہ پڑنے پر اور کبھی اپنے اوپر ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔

اتنی لڑکیاں اور لڑکے بیرون ملک علمی سطح پر نام پیدا کررہے ہیں۔ دنیا بھر کے پروگراموں میں ان کے انٹرویو آتے ہیں۔ ہم تو بس میرا بے چاری سے کبھی انگریزی بلواتے ہیں اور کبھی اردو۔ ادھر میڈیا کا یہ حال ہے، ادھر تمام تر موسیقی کو مشہور برانڈ کے اسٹوڈیو کے سپرد کرکے وہ بہت خوش ہیں۔ اسی لئے آپ کے سامنے نہ کوئی ریشماں آرہی ہے نہ روشن آرا بیگم۔ وہ تو اللہ بھلا کرے یوسف صلاح الدین کا اپنی خوبصورت حویلی میں بہت سے نئے گلوکاروں کو متعارف کروا رہا ہے۔ علامہ اقبال کا نواسہ ہونے کی نسبت سے کبھی علامہ اقبال کو قوالی کی شکل میں پیش کردیتا ہے۔ آرزو لکھنوی سے میرا جی اور جدید یعنی گزشتہ 50برس میں جو لکھنے والے سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے چند جو مہدی حسن نے گائے ہیں۔ ان کو نئی آوازوں کے ذریعہ سنوار دیتا ہے۔ وہ لوگ کہاں گئے جو محمد یوسف اور الن فقیر کو دریافت کرتے اور اس کے بعد، زیادہ تر گانے والیاں چونکہ ان پڑھ آتی رہی ہیں تو ان کو تلفظ سے لے کر تہذیب شعری شعور کی باقاعدہ تربیت کرتے تھے۔ اب کیا کیا جائے کہ جب ٹی وی پر اول تو جانے والوں پر تبرا ہوتا ہے یا پھر قوم کو خوفزدہ کرنے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ بس دو سال سخت ہیں۔ بس اس کے بعد ساری قوم بلے بلے کرتی ہوئی، سونے کے تاج ہاتھوں میں لئے، سربراہ کو پہنانے کے لئے بے تاب ہوگی۔

مگر سربراہ مملکت تو وزیراعظم ہیں اور صدر صاحب کتنے ملک کے ہمدرد ہیں کہ طوطا اور اس کا پنجرہ بنانے سے لے کر سارے ٹینڈر جو اخبار میں آئے تھے۔ اس کے خرچے کو دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگائے اور کہا نا بابا، اس خرچے سے تو میری صدارت پر حرف آئے گا۔ قوم کا پیسہ وہ بھی طوطوں اور مرمتوں پر بالکل فضول بات ہے۔ بہت مشہور لطیفہ ہے کہ ایک صاحب بڑا تمیز دار بولتا ہوا طوطا لے آئے۔ وہ جب کسی کو دیکھتا تو کہتا ’’السلام علیکم۔ آئیے تشریف لائیے۔ آپ کے مزاج کیسے ہیں‘‘ اور اس کے بعد دن کے دس بجے پھر وہ جو کچھ بولتا تھا۔ وہ لکھنا ناشائستگی ہوگی۔ آئیے اب کچھ سنی ان سنی بھی ہوجائے۔

اب دیکھئے کسی نے سنا تھا کہ چترال میں جون کے مہینے میں خوب برفباری ہوئی اور ناممکنات میں سے کراچی میں درجہ حرارت 50یا 55کے قریب پہنچ گیا۔ مئی کے مہینے میں بلوچستان میں جو سڑک نام کی کوئی چیز تھی، وہ شدید بارشوں میں اڑ گئی۔ ایک طرف مشتاق سکھیرا کو برطرف کیا گیا، دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم معطل کردیا۔

میرے خیال میں یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہورہا ہے، جس کو ہم قدرت کے حکم کا نام دے کر جان چھڑا سکتے ہیں پر کیوں۔ اس لئے کہ نئے بجٹ میں اس کے لئے رقم ہی نہیں۔ ڈھائی کروڑ بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے بھی رقم کا اعلان نہیں۔ البتہ آلو، پیاز، چینی اور مسور کی دال کی 17فی صد بڑھی ہوئی قیمتوں کا بتایا گیا ہے۔

مجھے یاد آتا ہے، جنوبی کوریا، وہاں مزدوروں کے اوقات کار صبح 8بجے سے شام 4بجے تک ہوتے تھے مگر سارے ملک کے مزدور فیکٹریوں میں ایک گھنٹہ زیادہ کام کرتے تھے۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو ان سب کا ایک ہی جواب تھا ’’چار بجے تک اپنے بال بچوں کے لئے کام کرتے ہیں اور ایک گھنٹہ اضافی اپنے ملک کی پیداوار بڑھانے کے لئے‘‘۔ کیا ہماری جذباتی قوم اور کام کرنے والوں میں یہی جذبہ موجزن کیا جاسکتا ہے جنوبی کوریا زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے۔ وہاں پہاڑوں کے درمیان سے سڑکیں نکال کر چھ چھ تلے اوپر سڑکیں بالکل جاپان کی طرح ہیں۔ بہت سے لوگوں کے تیسری منزل کے گھر کے سامنے سے سڑک گزرتی نظر آتی ہے۔ سب لوگ ایک کمرے کے بیڈ روم میں رہتے ہیں۔ اسی لئے کوئی مہمان آئے تو اسے ہوٹل لے جاتے ہیں۔ جس زمانے میں، میں پہلی دفعہ جنوبی کوریا گئی تو انہیں دنوں پاکستان سے کورین سفیر واپس گئے تھے اور میں وہ خوش نصیب خاتون تھی کہ جس کو انہوں نے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا، گھر ان کا بھی ایک بیڈ روم کا تھا۔ ہمارا اور ان کا کیا مقابلہ، ہمارے وڈیروں کے گھر تین تین سو کنال پر محیط ہوتے ہیں۔ زراعت پر ابھی تک ٹیکس نہیں ہے۔ بے زمین کاشتکار ان کے مزارع ہوتے ہیں، وقت بے وقت قرضے لے کر زندگی گزارتے ہیں۔ قرض جب بہت بڑھ جائے تو کبھی اپنی جوان بیٹی عوضانے میں دے دیتے ہیں اور جب کہیں بس نہ چلے تو خودکشی کر لیتے ہیں۔

یہ میں کہاں پہنچ گئی۔ ہم تو طوطے کے پنجرے کی قیمت کا تجزیہ کر رہے تھے مگر ہم وہ غریب ہیں جنہیں چاند میں بھی روٹیاں نظر آتی ہیں۔ اب روٹی کا وزن کم اور قیمت ڈالر کی طرح بڑھ گئی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین