• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت پچھلے چند ماہ سے جس تیزی سے پستی کی طرف جا رہی ہے، مہنگائی اور بیروزگاری میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور ہماری کرنسی جس بدترین گراوٹ کا شکار ہے، ہر باشعور پاکستانی اس صورت حال پر اضطراب میں مبتلا ہے، تاہم گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے قوم کو دی جانے والی یہ خبر معیشت کے حوالے سے امید کی کرن نظر آتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کی میثاق معیشت کی پیشکش قبول کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے وفاقی بجٹ کی منظوری کے لیے حکمت عملی طے کرنے کی خاطر وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ اسد قیصر نے اس ملاقات کے حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹر پر بتایا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات میں قانون سازی، سیاست اور معیشت کے مختلف امور پر گفتگو ہوئی جس میں وزیراعظم نے اقتصادی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے میثاقِ معیشت پر خصوصی کمیٹی کی تشکیل کے لیے آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اسد قیصر کے بقول خصوصی کمیٹی صرف موجودہ معاشی حالات کا جائزہ لے گی اور حل پیش کرے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں تمام اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے تعاون کریں گی۔ واضح رہے کہ میثاق معیشت کا تصور نیا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دور کے اقتصادی حکمت کار اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے اپنے دورِ اقتدار میں کئی بار اس ضرورت کا اظہار کیا گیا لیکن اپوزیشن نے اس پیشکش کی پذیرائی نہیں کی لہٰذا یہ تجویز عملی جامہ پہننے سے قاصر رہی ہے جبکہ موجودہ دورِ حکومت میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی جاتی رہی ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ ہی روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ”حکومت کو چارٹر آف معیشت کی تجویز دی تھی مگر وہ اس طرف نہیں آرہے، وہ اس تجویز کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن تاریخ میں یہ بات آگئی ہے“ جبکہ اس سے پہلے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں میثاق معیشت کی تجویز پیش کر چکے ہیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم کا اسپیکر قومی اسمبلی کے مطابق میثاق معیشت پر آمادہ ہو جانا قومی معیشت کی بحالی کے امکانات کے حوالے سے ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں معیشت، تعلیم، بلدیاتی نظام اور داخلہ و خارجہ امور سمیت کم وبیش تمام شعبہ ہائے زندگی کی حکمت عملی کے بنیادی خد وخال بڑی حد تک مستقل بنیادوں پر متعین ہوتے ہیں اور حکومتوں کے آنے جانے سے ان میں کوئی بڑی تبدیلی شاذ و نادر ہی واقع ہوتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت پوری مغربی دنیا اور جمہوریہ کوریا و جاپان وغیرہ جیسے ممالک اس حقیقت کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوتیں ان میں اقتدار میں آنے والا ہر گروہ ”ہر کہ آمد عمارت نو ساخت“ کے مصداق اپنی الگ شناخت قائم کرنے اور اپنی انفرادیت کا اظہار کرنے کے لیے اپنے پیشروئوں کی ہر پالیسی کو بدل ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔ وطن عزیز بھی اپنی عمر کی سات دہائیوں میں بارہا اس تجربے سے دوچار ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس ملک میں نہ کوئی مستقل تعلیمی نظام وجود میں آسکا ہے نہ معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام کا اہتمام ممکن ہوا ہے، نہ ہی عدالتی اصلاحات حتمی شکل اختیار کر سکی ہیں جبکہ زندگی کے دوسرے تمام شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔ بظاہر اسی رویے کے باعث ہماری معیشت جسے سال ڈیڑھ سال پہلے تک دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کیا جاتا تھا، آج سنگین مشکلات سے دوچار ہے۔ ان حالات میں میثاق معیشت پر وزیراعظم کی آمادگی قومی مفاد کا تقاضا اور ہوشمندی کی راہ اپنانے کے مترادف ہے لیکن یہ آمادگی کسی وقتی ضرورت کی تکمیل کی خاطر نہیں ہونی چاہئے بلکہ میثاق معیشت کی تجویر کو پوری نیک نیتی کے ساتھ عملی حقیقت میں ڈھالا جانا چاہئے۔

تازہ ترین