• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فضائیہ کے طیارے مسلسل بمباری کرکے لندن میں تباہی مچا رہے تھے ۔ بہت زیادہ جانی نقصان ہو رہا تھا اور معیشت تباہ ہو رہی تھی۔ ہر شخص یہ سوال کر رہا تھا کہ اس ملک کا کیا ہو گا ؟ افراتفری اور مایوسی کے ان حالات میں برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ ’’ کیا عدالتیں کام کر رہی ہیں ؟ ‘‘ انہیں بتایا گیا کہ عدالتیں معمول کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں اور لوگوں کو انصاف مہیا کر رہی ہیں ۔ چرچل نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔

ہر طرف تباہی کے باوجود برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل اس وجہ سے مایوس نہیں ہوئے کہ عدالتیں معمول کے مطابق کام کر رہی تھیں ۔ لوگوں کو انصاف مل رہا تھا ، جس نے ریاست پر لوگوں کا اعتماد قائم رکھا ہوا تھا ۔ پاکستان کے حالات تو اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ خود چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ عدلیہ کے سوا باقی ہر طرف سے اچھی خبریں نہ ملنے پر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف عدلیہ سے اچھی خبریں ہیں لیکن باقی ہر طرف سے اچھی خبریں نہیں مل رہی ہیں ۔ پارلیمنٹ کو دیکھیں تو مایوسی ، چینل بدل کر کرکٹ لگائیں تو مایوسی ، معیشت کی خبریں بھی مایوس کن اور عالمی سطح پر بھی بری خبریں مل رہی ہیں ۔ عدلیہ سے اچھی خبریں ہونے کے باوجود اگر خود چیف جسٹس آف پاکستان حالات سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں تو بحیثیت قوم ہمارے لئے انتہائی پریشانی اور تشویش کی بات ہے ۔

پاکستان اس وقت جس بحران کا سامنا کر رہا ہے ، وہ کسی بھی طرح ان ملکوں کے بحرانوں سے کم نہیں ہے ، جو دوسری جنگ عظیم میں سب سے زیادہ متاثر یا تباہ ہوئے ۔ گزشتہ چار عشروں سے پاکستان دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہے ۔ 1980 ء کی دہائی کی ابتدا سے لے کر آج تک ہمارے ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے ۔ لاکھوں افراد اس دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ جنگ عظیم کے دوران بھی شاید اتنی ہلاکتیں کسی ایک ملک میں ہوئی ہوں ۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے ۔ پاکستانی سماج کو نسلی ، لسانی ، فرقہ ورانہ اور مذہبی بنیادوںپر تقسیم کیا گیا ہے ۔ طبقاتی تفریق بھی بہت زیادہ گہری ہے ۔ امن وامان بہت حد تک قابو میں نہیں ہے ۔ مسلح افواج داخلی محاذ پر بھی الجھی ہوئی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بھی کشیدگی ہے ۔ ملک میں توانائی کا بحران ہے ۔ لوگوں کو تعلیم ، صحت ، اور پینے کے پانی جیسی سہولتیں میسر نہیں ہیں ۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے ۔ جناب چیف جسٹس کے بقول کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ معیشت ’’ آئی سی یو ‘‘ میں ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ آئی سی یو ‘‘ سے نکل آئی ہے ۔ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت ، اس کے بڑھتے ہوئے عالمی کردار اور پاکستان کے چین کے ساتھ سی پیک کی صورت میں نئے تعلق کی وجہ سے امریکا پریشان ہے ۔ وہ پاکستان کو نہ صرف دھمکیاں دے رہا ہے بلکہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعہ پاکستان کی معاشی جکڑ بندی کر رہا ہے تاکہ پاکستان اس کی گرفت سے نہ نکل سکے۔ اس سے زیادہ مایوس کن بات یہ ہے کہ ملک میں سیاسی پولرائزیشن بڑھ رہی ہے اور مہنگائی و غربت کی وجہ سے عوام کی مایوسی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

پاکستان کے جن حالات سے جناب چیف جسٹس مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ، ان حالات کو جنم دینے والے اسباب کا ذکر خود وہ اپنے اس تفصیلی خطاب میں کر چکے ہیں ، جو انہوں نے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے لیے منعقدہ فل کورٹ ریفرنس میں کیا تھا ۔ 17 جنوری 2019 کو اپنے خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ریاست کے اداروں عدلیہ ، مقننہ اور انتظامیہ کے مابین اعتماد کا فقدان رہا ہے اور ہر ادارے کے پاس اپنی پوزیشن کا دفاع کرنے کے لیے دلائل موجود ہیں ۔ انہوںنے دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کی بات کی تھی ۔ جناب چیف جسٹس نے یہ بھی بتایا تھا کہ ملک میں 19لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں اور صرف 3000 ججز ہیں ، جو اگر 24گھنٹے بھی کام کریں تو بھی ان مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو سکے گا ۔ جناب چیف جسٹس نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان اسباب پر توجہ دیں گے ، جن کی وجہ سے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔ انہوں نے فوجی عدالتوں اور دیگر خصوصی عدالتوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ عدالتوں کے سوموٹو نوٹس لینے کے اختیارات پر بھی انہوںنے آئین کے آرٹیکل 184 (3 ) کے تحت واضح پالیسی بنانے کی بات کی تھی۔ جناب چیف جسٹس کا 17جنوری کا خطاب نہ صرف عدلیہ کے لیے گائیڈ لائن ہے بلکہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے اس میں بعض قابل عمل تجاویز بھی موجود ہیں ۔ انہوں نے اداروں کے مابین مکالمہ ( انٹر انسٹی ٹیوشنل ڈائیلاگ ) کی بھی تجویز دی تھی ۔ اس ڈائیلاگ میں پارلیمانی قیادت ، عدلیہ کی اعلیٰ قیادت اور انتظامیہ بشمول فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے نمائندوں کی شرکت کی تجویز دی گئی تھی ۔

جناب چیف جسٹس کے اس خطاب کے بعد عدلیہ سے یقیناََ اچھی خبریں آنا شروع ہوئیں ۔ ڈیم بنانے کی بجائے مقدمات نمٹانے پر توجہ دی گئی اور اس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے۔ عدالت کی طرف سے بہت کم سوموٹو نوٹس بھی لیے گئے ۔ مقننہ اور انتظامیہ کی یہ شکایت کسی حد تک ختم ہوئی کہ ان کے اختیارات میں مداخلت کی جا رہی ہے لیکن جناب چیف جسٹس اس امرسے بھی ضرور اتفاق کریں گے کہ عدلیہ سے اچھی خبریں ضرور آ رہی ہیں ۔ اس کے باوجود اداروں میں اعتماد کا فقدان آج بھی ہے۔ پارلیمنٹ میں آج بھی عدالتی فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ وہ مرحلہ ابھی نہیں آیا ہے کہ سرونسٹن چرچل کی طرح پاکستان کے سیاست دان بھی جنگ اور معاشی تباہی کے دوران صرف اس لیے پر امید ہوں کہ عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں ۔ سیاست دانوں کے موقف پر تنقید ہو سکتی ہے لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں جناب چیف جسٹس کی یہ بات درست ہے کہ ہر فریق کے پاس اپنی پوزیشن کادفاع کرنے کے لیے دلائل موجود ہیں ۔ عدالتیں مکمل طور پر اپنا کام کریں اور ان پر دیگر اداروں اور عوام کا مکمل اعتماد ہو ۔ یہ منزل حاصل کرنے کے لیے جناب چیف جسٹس کی ’’ اداروں کے مابین مکالمہ ‘‘ کی تجویز پر عمل کرنا اب بہت ضروری ہو گیا ہے۔

تازہ ترین