• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عیسی خیل میں پچھلے اٹھارہ گھنٹوں سے بجلی نہیں ہے ۔
کامونکی میں ایک عورت نے اپنے معصوم بچے کے ساتھ خود کشی کرلی ہے۔
کراچی میں گذشتہ سال دوہزارسے زائدافراد قتل ہوئے ہیں ۔
بلوچستان میں حکومتی عمل داری کوئٹہ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
کوئٹہ میں 87لاشوں کا چار دن تک احتجاج جاری رہا
مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی اٹیمی حملے سے بچاؤ کے اقدامات کی تشہیری مہم شروع کردی گئی۔
روپیہ گرتے گرتے ایک امریکی سینٹ کے برابر آگیا
میران شاہ کے قریب ڈرون حملے میں چار بچے اور دو عورتیں ہلاک ہوگئیں۔
سلالہ چوکی ٹیٹو کے حملے میں تباہ ہوگئی۔
ملالہ کو اس لئے گولی ماری گئی ہے کہ یہ لڑکی بڑی ہوکر اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ دے گی ۔ تحریک طالبان پاکستان۔
بازار سے چینی غائب ہوگئی ہے۔
آٹے کی قیمت میں پچاس فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔
سی این جی اسٹیشن غیر معینہ مدت تک بند رہیں گے۔
ایک سال میں پانچ مرتبہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ۔
پیاز دوسو روپے کلو ہوگئے ۔
رینٹنل پاور کیس کی تفتیش کرنے والے آفسر نے خود کشی کرلی یا اسے قتل کردیا گیا۔
انتخابات میں امیدواروں کے چھان بین کیلئے ایک ماہ کا عرصہ متعین کرنے پر ہمیں تحفظات ہیں۔ قائد حزبِ اختلاف۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم کا نیوزی لینڈ میں اربوں ڈالر کا بزنس ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری۔
پاکستان میں روزانہ سات ارب کی کرپشن ہوتی ہے جس میں سے پانچ ارب کی پنجاب میں ہورہی ہے۔ چیئرمین نیب۔
صدر پاکستان آصف علی زرداری کے پاس ساٹھ ارب ڈالر موجود ہیں ۔(مغربی میڈیا)
اگر آئین کے مطابق الیکشن کرائے جائیں تو موجودہ اسمبلیوں میں سے نوے فیصد لوگ انتخابات میں حصہ نہیں لیں سکیں گے۔ (جیو)
یہ تو چند ایک باتیں ہیں جو فوری طور پر ذہن میں آئیں ذرا سی دیراور سوچاجائے توپاکستانی جمہوریت کے ایسے ایسے کارہائے نمایاں یاد آجائیں گے جن کی مثال کسی ملک کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔یہ جملہ پڑھتے ہی آپ کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا ہوگا کہ میں جمہوریت کے خلاف کچھ کہنے والا ہوں ۔جی ہاں میں اُس جمہوریت پر آج تف بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہوں جس نے پاکستان کو تباہی کے آخری دھانے تک پہنچا دیا ہے ۔بے شک جمہوریت بذات خود کو بری شے نہیں اس کا برا استعمال ہی اسے برا بناتا ہے مگرپاکستان میں جمہوریت کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ منٹو کا افسانہ ”کھول دو“ بن چکی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے چہرے پر اتنے نقش و نگار بنائے گئے ہیں کہ عوام اس سے بچوں کو ڈرانے سے سوا اور کوئی کام نہیں لے سکتی ۔پاکستان میں جمہوریت کی آنکھوں میں اتنی مرتبہ سلائیاں پھیری گئی ہیں کہ اب وہاں آنکھوں کی جگہ دو ہولناک غار بن گئے ہیں جہاں اندھیرے پرورش پاتے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت ایک مافیا بن چکی ہے جوصرف چند لوگوں کیلئے غیرقانونی طریقے سے مال و دولت جمع کرتی ہے۔اس جمہوری مافیا کے کئی گروپ ہیں جن کی آپس میں اکثر اوقات لڑائی جاری رہتی ہے مگرجس طرح جرائم پیشہ لوگوں کے درمیان بھی ایک دوسرے کو قانون سے بچانے کا ایک غیر اعلانیہ معاہدہ ہوتا ہے ان گروپس میں بھی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں جمہوری مافیا کے ان گروپس نے اپنے اپنے علاقے تقسیم کئے ہوئے تھے اور قومی یک جہتی کے خوبصورت لیبل لگاکرلوڈ سینڈنگ کا زہر بازار حکومت میں فروخت کرتے رہے۔کہیں سستی روٹی کے نام پر غریبوں کا پیٹ کاٹا گیا ۔ کہیں بے نظیر انکم سپورٹ کی صورت میں غریب بوڑھیا سے اس کی دوائی چھین لی گئی ۔کہیں حجاج کی نیکیا ں چرالی گئیں۔کہیں جعلی ادوایات کی فیکٹریوں سے صحت ِ عامہ کی تقسیم کی گئی کہیں بجلی کے چوری سے روشنیوں کو فروغ دیا گیاکہیں مافیا کے میٹرک فیل ممبر سے یونیورسٹیوں میں تعلیم کی ترویج کرائی گئی کہیں اچھے لوگوں کی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔کونسا ایسا اقدام ہے جو اس جمہوری مافیا نے اس ملک کی رگ رگ سے خون نچوڑنے کیلئے
نہیں کیا۔ انہوں نے تو پتھر بھی نچوڑ کر دیکھے کہ کہیں ان میں بھی کچھ موجود نہ ہو۔اب یہ جمہوری مافیا انتخابات کے مقام سخت و تلخ پر پہنچا ہوا ہے ۔ہر گروپ کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقہ اس کی جاگیر میں آئے ۔کچھ ایسے بھی ہیں جو اس جمہوری مافیا سے عوام کو نجات دلانا چاہتے ہیں ۔جنہیں یہ گروپس بہت بری نظر دیکھ رہے ہیں ۔ابھی ڈاکٹر طاہر القادری نے کینیڈا سے آکرذرا انہیں للکارا تھا۔سب اکٹھے ہوگئے تھے ۔پنجاب اسمبلی کیا اور کیا پختون خواہ اسمبلی۔ اس کے خلاف باقاعدہ قرار دادیں منظور ہونے لگیں ۔آصف زرداری اور نواز شریف کی فون پر گفت و شنید شروع ہوگئی ۔ابھی یہ جمہوری مافیا کے گروپ عمران خان کی طرف بہت پریشان کن نظروں سے دیکھتے ہیں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اصلی جمہوریت کتنی خطرناک چیز ہے۔
تازہ ترین