• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اس وقت احتساب کا جوعمل جاری، اگر یہ نتیجہ خیز نہ ہوا تو اس سے نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی مقبولیت کی بنیادیں مکمل کھوکھلی ہو جائیں گی بلکہ لوگوں کا ریاست پر اعتماد بری طرح متزلزل ہوگا، پاکستان کے عوام میں زبردست مایوسی پھیلے گی اور مستقبل میں کرپشن کو روکنا بہت زیادہ مشکل ہو جائے گا کیونکہ احتساب کا یہ عمل 1947ء سے 2018ء تک ہونے والے احتساب کے عمل سے بہت مختلف ہے۔

موجودہ احتساب کا عمل پہلے والے سے کیونکر مختلف ہے، اس کو سمجھنے کے لئے انتہائی ایمانداری کے ساتھ تلخ حقائق کو بیان کرتے ہوئے اپنی قومی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ہوگا۔ نصف صدی کی سیاست، تحریر اور تقریر میں ایمانداری سے بات کرنے میں اس قدر مشکل محسوس نہیں ہوئی، جس قدر آج کل ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم پرانی نسل کے لوگ غلط ہوں لیکن تحریر و تقریر کی آزادی جو ہم نے دیکھی، اس سے آج کی نسل محروم ہے کیونکہ میڈیا کے ذرائع بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور اطلاعات کا سیلاب ہے۔ خیر اس بحث میں الجھنے کے بجائے اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ میں یہاں اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کروں گا بلکہ کچھ تلخ حقائق کا تذکرہ کروں گا، جنہیں وسیع تر حلقے تسلیم کرتے ہیں۔

پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد احتساب کا جو عمل شروع ہوا، وہ بدنیتی پرمبنی تھا۔ اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ملک میں سیاست کا خاتمہ کیا جائے اور جمہوری قوتوں کو کمزور کرکے مخصوص نسلی فرقہ ورانہ ہیئت مقتدرہ کی حکمرانی کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ ’’پروڈا‘‘ اور ’’ایبڈو‘‘ جیسے احتساب کے سیاہ قوانین کے ذریعے ان سیاست دانوں کو احتساب کا نشانہ بنایا گیا، جن کی دیانت داری کی وقت قسمیں کھاتا تھا اور وہ اپنے اصولوں اور نظریات کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر سکتے تھے۔ دوسری تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اور جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کے لئے موقع پرست سیاست دانوں کی حمایت حاصل کی گئی۔ ان موقع پرست سیاست دانوں کو پلاٹس، پرمٹس، وزارتیں، دیگر مراعات اور لوٹ مار کے مواقع فراہم کئے گئے بلکہ سیاست میں کرپشن کا زہر گھول دیا گیا، جو سیاست دان احتساب سے بچنے کے لئے مقتدر حلقوں کے اشاروں پر چلنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے، انہیں پارسائی کی سند مل جاتی تھی۔ اس طرح کرپشن ایک ادارہ جاتی عمل (Institutional Phenomenon) بن گئی۔ ایک دور کے ’’کرپٹ لوگ‘‘ دوسرے دور میں ’’پارسا‘‘ ہو گئے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ احتساب کے نام پر مینڈیٹ لے کر آنے والے عمران خان کی پارٹی میں بھی پہلے کرپٹ سمجھے جانے والے لوگ پارسا بن گئے ہیں۔

پہلے دو تلخ حقائق احتساب کے عمل کا بنیادی خاصا ہیں، جو قیامِ پاکستان سے اب تک اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ تیسری تلخ حقیقت نے ضیاء الحق کے دور میں جنم لیا، جو موقع پرست سیاست دانوں کو مزید کرپٹ اور مال دار بنانے کا سبب بنی۔ پاکستان میں ادارہ جاتی کرپشن ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوئی اور اس سے دیانت دار سیاست دانوں میں پیسہ جمع کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ ان کے دور کے بعد میزان بینک اسکینڈل سامنے آیا اور حکومت گرانے کے لئے ارکانِ پارلیمنٹ کے اغواء کے واقعات ہوئے۔ دیانت دار سیاست دانوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ پیسے کے بغیر سیاست ممکن نہیں ہے۔

میں نے اپنی زندگی میں یہ جملہ بھی سنا کہ ’’نظریات اور مسائل پر بات کرنے کے بجائے پیسہ کمانے کی بات کرو‘‘ یہ پاکستان میں تباہی کا آغاز تھا۔ کرپشن ادارہ جاتی طور پر اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی۔ ان تلخ حقائق کے بعد اب بات کرتے ہیں کہ اب کیا ہو رہا ہے؟ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ نے 1990ء کے عشرے میں یہ بات محسوس کر لی تھی کہ نصف صدی تک سیاسی اور جمہوری قوتوں کو احتساب کے نام پر کچلا گیا لیکن سیاست اور جمہوریت کی بات پھر بھی ہو رہی ہے۔ اس ہیئت مقتدرہ نے احتساب کو سیاسی نعرہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ 1990ء کے عشرے میں سیاست دانوں کے کرپٹ ہونے کا بیانیہ عمران خان کی زبانی سننے کو ملا لیکن سیاست دان بھی واقعی کرپٹ ہو چکے تھے۔ یہ بات ہم جیسے نظریاتی کارکنوں کے لئے صدمے کا باعث تھی۔ جنہوں نے جمہوریت کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھانسی کے پھندے چومے۔

ان تمام تر تلخ حقائق کے باوجود مجھے دکھ صرف اس بات کا ہے کہ سیاسی قوتیں کرپٹ ہو گئی ہیں۔ پاکستان میں جس سیاسی اور جمہوری نظام کے لئے ہماری نسل نے قربانیاں دیں، وہ بیکار چلی گئیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے سیاست دانوں کا احتساب ہونا چاہئے، جنہوں نے لوگوں کی قربانیوں کو نظر انداز کیا اور عوام کے بجائے پیسے کی طاقت پر اعتماد کیا۔ پاکستان میں غلط بنیادوں پر بنایا گیا احتساب کا طوق عمران خان کے گلے میں ڈال دیا گیا ہے، جو سیاست اور تاریخ سے ناواقف ہیں۔ اس کے لئے عوام کی خواہشات کو بھڑکا کر عمران خان کی سیاسی مقبولیت کی بنیاد بنائی گئی ہے جبکہ پہلی مرتبہ ان سیاست دانوں کا احتساب کیا جا رہا ہے، جو واقعتاً کرپٹ ہیں۔ سیاست دانوں کو یہ ملک چلانا ہے۔ ان کا احتساب میرے خیال میں سب سے ضروری ہے کیونکہ ہم نے سیاست اور جمہوریت کے لئے قربانیاں دی ہیں، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عمران خان کئی شعبوں میں ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ نہ تو وہ سیاست دان ہیں اور نہ ہی تاریخ کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔ معیشت اور انتظامی امور میں وہ مکمل طور پر ناکام ہیں۔ ان میں اسٹیٹسمین شپ (Statesmanship) بھی نہیں ہے جبکہ علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب ہوگا۔ احتساب کا نتیجہ وہی ہو سکتا ہے، جس کا میں آرٹیکل کے پہلے پیراگراف میں بیان کر چکا ہوں اور یہ بہت خطرناک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس دفعہ احتساب اپنے logical conclusion یعنی منطقی انجام تک جائے گا!

تازہ ترین