• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں پچھلے کچھ سالوں سے میثاقِ جمہوریت اور میثاقِ معیشت کے الفاظ کے بڑے چرچے ہیں۔ عملاً دونوں شعبوں میں ماضی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ البتہ بیان بازی کی حد تک دو بڑی پارٹیوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس مشترکہ نعرے کو سیاسی مقاصد کیلئے خوب استعمال کیا۔ لیکن دونوں پارٹیوں میں عملاً عدم اعتماد یا اعتماد کے فقدان کی وجہ سے یہ کام سلوگن سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اسکے بعد اب پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں ایک بار پھر یہ دونوں سلوگنز زیر بحث ہیں لیکن زیادہ زور حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے میثاقِ معیشت پر دیا جا رہا ہے۔ جبکہ بعض حلقوں کے خیال میں ’’نیت‘‘ کی خرابی کے خدشہ کے تحت اس حوالے سے پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت واقعی ایک ایسے میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے جس کا حصہ تمام قومی سیاسی پارٹیاں بنیں اور اسے پارلیمنٹ کی مکمل منظوری اور آئینی تحفظ فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں، جسکے تحت ملک میں ہر پانچ سال یا اس سے پہلے جو بھی حکومت بنے وہ قومی معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد کی پابند ہو۔ اس سلسلے میں نیشنل اکنامک چارٹر مرتب کرنے کیلئے پاکستان کے ماضی کے آٹھ دس سابق وزرائے خزانہ اور منصوبہ بندی کمیشن کے ماہرین اور آزاد معیشت دانوں کا پینل بنا کر قومی اقتصادی ایجنڈے کو کسی بھی سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر مرتب کیا جانا چاہئے۔ جس کی اس وقت ضرورت پہلے سے کافی زیادہ ہے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی سوچ ترک کرکے صرف اور صرف پاکستان کی معیشت اور عوام کیلئے مشترکہ چارٹر مرتب کیا جائے جو دس سے بیس نکات سے زیادہ ہو۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان مزید تاخیر کئے بغیر ماہِ جولائی میں قومی سطح کی ایک کانفرنس بلائیں جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو مدعو کرکے ان سے اپنے اپنے نمائندے نامزد کرنے کی درخواست کریں اور 14اگست 2019ء کو اتفاقِ رائے سے مرتب کردہ میثاقِ معیشت کا خاکہ تمام پارٹیوں کے نمائندوں کے دستخطوں کے ساتھ قوم کے سامنے ان نمائندوں کے ہمراہ پیش کر دیں۔ وزیراعظم کے اس اقدام کے آغاز ہی سے پتا چل جائے گا کہ حکومت مخالف سیاسی پارٹیاں اور گروپ کیا واقعی میثاقِ معیشت چاہتے ہیں یا محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ۔ اس حوالے سے سب سے مشکل صورتحال قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کیلئے ہوگی جو یقیناً اپنےاس حوالے سے کئے جانیوالے اپنے بار بار کیے جانیوالے دعوے کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کرینگے۔ یہی صورتحال پاکستان پیپلز پارٹی کی ہوگی۔ دونوں پارٹیوں کیلئے یہ مشکل صورتحال ہوگی کہ وہ پاکستان کی معاشی ترقی کے پہلے باضابطہ میثاقِ معیشت کا حصہ وزیراعظم عمران خان یا پی ٹی آئی حکومت کے دوران بنیں۔ وزیراعظم عمران خان کے لئے خود بھی دونوں بڑی پارٹیوں کیساتھ اتفاق رائے کرنا آسان نہیں ہوگا مگر حکومت میں ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر عمران خان کو یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دنیا چاہئے۔ اس میثاقِ معیشت کے مسودے میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی حوصلہ شکنی کیلئے خالص اقتصادی ایشوز پر فوکس کیا جانا چاہئے جس میں ٹیکسیشن، انرجی، صنعت، زراعت، نجکاری، مالیاتی پالیسی اور دیگر شعبوں پر زیادہ نکات پر اتفاق رائے کیا جانا چاہئے۔ اس طرح قومی روزگار پالیسی، غربت کے خاتمہ اور مالیاتی ڈسپلن کے حوالے سے اقدامات بھی تجویز کئے جانا چاہئیں۔ ان دستاویز کی باقاعدہ منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے اور اس میں یہ الفاظ شامل کر دیئے جائیں کہ کوئی حکومت میثاقِ معیشت کی اس دستاویز کو حکومت میں ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں تبدیل نہیں کر سکے گی۔ البتہ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے سیاسی معاملات معمول کے مطابق چلاتی رہیں لیکن اقتصادی ایشوز پر پسند ناپسند کی بنیاد پر کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ اس حوالے سے کچھ نہ کچھ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے اس سے حکومت اور اپوزیشن سے زیادہ عوام کا بھلا ہو جائیگا ۔ پھر اس حوالے سے آگے بڑھنا سب کیلئے آسان ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اس سے پاکستان کی معاشی ترقی کے نئے سفر کا عملی آغاز ہو جائے۔

تازہ ترین