• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:الطاف شاہد…برمنگھم
پاکستان میں احتساب زورو شور سے شروع ہے مگر اس کا انجام کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔ زر اور زور نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد زندانوں میں ہیں پاکستان میں مختلف حلقوں کی طرف سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ VIPکی پکڑ دھکڑ تو ہو رہی ہے لیکن پیسہ نہیں مل رہا ہے اب کمیشن بن رہا ہے جو کہ زرداری اور نواز شریف کے عہد حکومت میں لئے گئے قرضوں کے استعمال اور کرپشن کے بارے میں تحقیقات کرے گا اس سے قبل کئی کمیشن بنے ہیں حمود الرحمٰن کمیشن، میمو گیٹ کمیشن مگر کیا فائدہ ہوا۔ احتساب کی بات درست ہے جس کا بنیادی مقصد کرپشن کے پیسے کی وصولی ہے کیونکہ قومی خزانے میں اس کی ضرورت ہے کہ کچھ ریکوری کی جائے مزید خرچوں کے بوجھ میں کمی کی جائے۔ بجٹ نے بھی خسارے بڑھا دیئے ہیں بیچاری قوم کے پاس ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد بنیادی ضروریات زندگی کی خرید کیلئے کچھ نہیں بچے گا اور آئندہ بجٹ تک پیٹ پر پتھر باندھنے ہوں گے، معیشت کے امور سنجیدہ اور اعداد وشمار خاصے پچیدہ ہوتے ہیں ملک کی اقتصادی بحالی کے بارے میں کوئی اچھی خبر نہیں سنا رہے ہیں ان کے تبصرے بجٹ خساروں میں اضافے کی طرف لے جاتے ہیں، معاشی مشکلات محض احتساب کے نعروں اور جذباتی لفاظی سے حل نہیں ہوتے ہیں اداسی ہمارے شہروں کے مکانوں اور دیواروں پر بال بکھیرے سو رہی ہے پاکستان تحریک انصاف نے کئی محاذ ایک ساتھ کھول دیئے ہیں کیا حکومت اتنی مقبول ہے کہ تمام کھلواڑ کو سمیٹ لے گی، حکومتی پالیسیوں نے اس کی کارکردگی کا بھرم کھول دیا ہے۔ بجٹ کے حوالے سے تمام طبقات پریشان ہیں صرف حکومت میں شامل لوگ اس بجٹ کو انقلابی قرار دے رہے ہیں اور نئے پاکستان کا بجٹ قرار دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومتی تجاویز سے ریاستی آمدنی میں اضافہ ہوگا صورتحال یوں لگتی ہے کہ لوگ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں گے جبکہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام آ گیا ہے جبکہ ڈالر کی قیمت کہیں ٹکتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ہے، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ڈالر کی قیمت کا تعین منڈی کی قوتوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کی قیمت کے حوالے مرکزی بینک کو اقدامات کرنے ہوںگے۔
دوسرا محاذ سیاستدانوں کے احتساب کی وجہ سے کھل گیا ہے میاں نواز شریف پہلے سے جیل میں ہیں اب آصف علی زرداری کے ساتھ ان کی بہن فریال تالپور کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، حمزہ شہباز حراست میں ہے، احتساب بیورو کی طرف سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، ایف بی آر بھی حرکت میں آ چکا ہے اور لوگوں کو نوٹس بھجوائے جا رہے ہیں ایک حکومتی عہدیدارکے بقول 5ہزار افراد کو گرفتار کیا جا سکتا ہے، ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس احتساب کو سیاسی انتقام قرار دے رہی ہیں حالانکہ یہ مقدمات ان کے اقتدار کے دوران قائم ہوئے تھے دیگر جماعتیں بھی اپوزیشن کے موقف کی حامی ہو رہی ہیں، رائے ونڈ میں مریم نواز کے ساتھ بلاول کی ہونے والی ملاقات سے اپوزیشن کے نئے اتحاد بنانے کا تاثر ابھرا ہے اور وہ جلد ہی حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، شاید اس کا اعلان آل پاکستان پارٹی کی کانفرنس کے بعد ہوگا جس کا اہتمام مولانا فضل الرحمٰن کر رہے ہیں اور اس ضمن میں تمام سیاست دانوں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں مگر اس کے لئے عوام اور سیاسی کارکنوں کو متحرک کرنا ضروری ہوتا ہے، سیاسی کارکنوں کے متحرک ہونے سے ہی پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا اگر یہ جانثار نہ ہوتے تو پاکستان وجود میں نہ آتا ان کے بغیر سیاسی جلسے بے کیف رہتے ہیں۔ پاکستان میں جب سیاسی تحریک چلتی تھی تو سیاسی کارکنان دیوانگی کے ساتھ جلسے جلسوں میں شریک ہوتے تھے، لیڈر پیدل چل کر جلوسوں کی قیادت کرتے تھے، کارکنوں کی اپنے لیڈروں کے ساتھ نظریاتی اور شخصی وابستگی ہوتی تھی اور انہیں یقین ہوتا تھا یہ ان کے مسائل حل کرے گا، مگر آج کل جلسے جلوس ہوتے ہیں لیڈر ائر کنڈیشن گاڑیوں میں بیھٹے رہتے ہیں ان کی حفاظت کارکن کی بجائے سیکورٹی گارڈ ہوتے ہیں جلسوں میں مختلف جگہوں سے معاوضہ دے کر لوگوں کو جلسہ گاہ میں لایا جاتا ہے، ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کے جلسے جلوسوں میں افراد میلوں پیدل چل کر آیا کرتے تھے مگر اب یہ کلچر بدل گیا ہے۔
ٹیلی ویژن پر مختلف جماعتیں اپنے لیڈروں اور نمائندوں کو ٹی وی ٹاکس میں شرکت کیلئے بھجواتی ہیں جن کا تعلق بالخصوص مسلم لیگ ن ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے ہوتا ہے جبکہ کبھی کبھار سیاست، معیشت، سماجیت اور سوشل سائنسز کے ماہرین کو ان میں شرکت کیلئے دعوت دی جاتی ہے، سیاسی شرکاء حسب معمول ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہیں کرتے جس سے ان کی فکری بصارت کا بر ملا اظہار ہوتا ہے جبکہ کچھ کے پاس ایسے بھی نمائندے ہیں جو کہ پوری تیاری کے ساتھ ان پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں گزشتہ دنوں جب بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز سے ملاقات کرنے کیلئے آئے تو ان کے ساتھ قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور احمدوغیرہ موجود تھے،ایک نجی چینل پر مذاکرے میں ایک سیاسی شخصیت نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ اس کے پاس کوئی قدآور شخصیت نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور کو ہر ملاقات میں اور میٹنگ میں لے جایا جاتا ہے یاد رہے ان دونوں کا تعلق مڈل کلاس سے ہے یہ کسی مراعات یافتہ طبقے سے تعلق نہیں رکھتےپاکستان تحریک انصاف نے نئے پاکستان کی تعمیر کیلئے احتساب کے نام پر ووٹ لئے تھے آج اقتدار میں آنے کے دس ماہ بعد بھی معاشی اور سیاسی ترقی کا کوئی روڈ میپ دینے میں ناکام ہے وہ اب تک دو ضمنی اور ایک سالانہ بجٹ پیش کر چکی ہے اس نے اپنی معاشی ٹیم کو باہر نکال دیا ہے جبکہ غیر منتخب مشیروں اور عالمی اداروں کے عہدیداروں کی مدد حاصل کی ہے اس کا مقصد آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا ہے آج عمران خان کو اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اپنی کارکردگی کا لوہا منوانا ہوگا ، ملک کی معاشی ترقی کیلئے سٹرکچرل اقتصادی معاشی اور انتظامی اصلاحات کریں، انصاف اداروں پر چھوڑ دیں خود کام کریں محض سیاسی مخالفت کی بنا پر دوسروں کی تذلیل نہ کریں یوں محسوس ہوتا ہے یہ سب ڈرامہ زرداری اور نواز شریف سے شروع ہو کر محض افسانے اور قصے کہانیاں نہ بن جائے۔
تازہ ترین