• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پہلاپتھرـ‘‘ادب کی دنیامیں ایک شانداراضافہ ہے

گل دخار…سیمسن جاوید
کسی بھی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی، مہذب قوم اور معاشرے کی تشکیل میں ادیب بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی ثبت شدہ تحریریں تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ جو قوموں کیلئے کسی قیمتی اثاثہ سے کم نہیں ہوتیں کیونکہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ بن جاتی ہیں۔’’پہلا پتھر‘‘ ادب کی دنیا میں ایک عظیم اضافہ ہے۔ ادب چونکہ قوموں کے مزاج ،امنگوں اور جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ایک اچھا ادیب جس طرح اپنے عہد کی بنیادی اقدار ،واقعات اور معاملات کو اپنی تخلیقی عمل کا موضوع بناتا اور دوسرے عصری تقاضوں کو اپنی تخلیقات میں جس انداز سے سمیٹتا ہے، اس سے اس کے عہد کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اسکی تخلیقی کاوشیں کسی ایک نسل اور فرقے تک محدود نہیں رہتیں بلکہ وہ نسل و رنگ اور لسانیت کی تمام حدود کو توڑ کر سارے عالم کی وراثت میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔سچا اور زندہ ادیب اپنے دور کے تمدنی اور معاشرتی حالات کی عکاسی اور ترجمانی کے ساتھ ساتھ عصری رجحانات کی آئینہ داری بھی کرتا ہے۔اور اس کی نگارشات میں اس کی روح جلوہ گر ہوتی ہے۔ وہ اپنے حیات افروز اور زندگی آموز افکار سے دلوں کی دنیا کو گرماتا ہے تاکہ انسانی معاشرہ باہمی محبت کی فضا میں بھلائی ،خیر سگالی اور درد مندی کے جذبات کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرے۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ تمام اوصاف ’’پہلا پتھر‘‘ کے مصنف کی شخصیت میں بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ جو ایک سچے اور زندہ ادیب میں ہونے چاہئیں۔کتب کی دنیا میں ’’پہلا پتھر‘‘ یقیناً ایک شاندار اضافہ ہے۔ یہ کتاب کہانیوں پر مبنی ہمارے اردگرد موجود مشرقی و مغربی معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ جس میں پرانی اور نئی نسل میں پائی جانے والی خلیج کو ختم کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اور بڑی عرق ریزی کے ساتھ بہت سی تلخ حقیقتوں کو آشکار کیا گیا ہے۔ جس طرح میرے مصنف کے بارے میں سب دوست و احباب جانتے ہیں کہ وہ ایک حقیقت پسند اور بے دھڑک کہہ دینے والے انسان ہیں جن کے نزدیک اشرف المخلوقات چرند و پرند سب خدا کے پیدا کردہ ہیں تو پھر انسانوں میں مذہب،رنگ و نسل کی پاداش میں تفریق کیسی۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت دفعہ بہت سی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں مگر وہ حقیقت اور سچائی کا دامن نہیں چھوڑتے۔گھر اور والدین کی تربیت کی بدولت انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ہی سے سچی کہانیوں کو اپنا موضو عِ تحریر بنایا۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں پاکستان کے مایہ ناز ناول نگار اسلم راہی کی سر پرستی حاصل رہی جو گجرات میں ان کے سکول ٹیچر بھی تھے۔اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔کالج کے زمانے میں اردو کے پروفیسر عبدالواحد نے بھی ان کی خاص حوصلہ افزائی کی۔ان کی اکثر کہانیاں روزنامہ آواز،اور سپیکر میں شائع ہو چکی ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنی اہلیہ کی زیر ادارت ’’فیملی فرینڈ‘‘ جو کہ عورتوں کا ایک ادبی میگزین تھا میں افسانوں اور کہانیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ مجھے محبوب الٰہی بٹ کی قربت پر فخر ہے اور میں برملا کہوں گا کہ اپنی تحریروں کی طرح وہ نڈر، بیباک اور مخلص انسان ہیں۔ سچ کہنے سے وہ کبھی نہیں ہچکچاتے۔ اور صاف صاف بات منہ پر کہہ دیتے ہیں، چاہے کسی کو غصہ ہی کیوں نہ لگے۔ ان کے دل میں ہر کسی کے لئے ہمدردی ہی دیکھی ہے، مثبت سوچ کے مالک ہیں، کہتے ہیں کہ جو منفی سوچ رکھتے ہیں ان میں تخلیقی عمل ختم ہوجاتا ہے۔ اپنی مثبت سوچ ہی کی بدولت ان کی تحریروں میں دن بدن نکھار آتا جاتاہے۔ دعا گو ہوں کہ خدا تعالٰی انہیں عقل و دانش اورہمت و طاقت عطا فرمائے تاکہ وہ قوم و ملت کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہیں۔آمین
تازہ ترین