• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے قومی بجٹ پرہونے والی بحث کے بعد سے پارلیمنٹ میں سیاسی درجہ حرارت کچھ کم ہوچکاہےتو قومی اسمبلی اورسینٹ میں ابتدائی ہنگامہ آرائی کےبعدجمعیت علمائےاسلام، جے یو آئی (ف)کےمولانافضل الرحمن کی جانب سے بروز بدھ26 جون کواپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کےانعقاد کااعلان کرنےکےبعدیقیناًباہر شوروغل زیادہ ہے، اس کا مقصد حکومت مخالف تحریک اور ’اسلام آباد لاک ڈائون‘ کی منصوبہ بندی کرنا ہے۔ اب زیادہ تر یہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی مخالف حکمت عملی پر منحصرہے کہ وہ صورتحال سےترغیب و تحریص سے نمٹیں۔ اسٹیبلشمنٹ میں کچھ ہائی پروفائل تبدیلیوں کوبہت سے لوگ سیاسی طورپراہم پیش رفت کے طورپردیکھ رہےہیں۔ چونکہ پاکستان کو بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور گزشتہ دس ماہ میں حکومت عوام کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے اور مہنگائی میں غیرمثالی اضافہ ہوا ہے اور گیس اور بجلی کےمحصولات میں بڑھ گئے ہیں جس کیلئےپی ٹی آئی اور وزیراعظم گزشتہ حکومتوں کو الزام دیتے ہیں اور انھوں نے ایک اعلیٰ سطحیٰ کمیشن تشکیل دے دیاہے، حالات ٹھیک نظرنہیں آتے۔ اے پی سی کااعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک جانب پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےنوابشاہ میں شہید محترمہ بے نظیربھٹو کی سالگرہ کے موقع پرایک سخت تقریرکی ہے اور حکومت کاتختہ الٹںے کاعزم کیا اور دوسری جانب پی ایم ایل(ن) کی رہنما مریم نواز کافی عرصے بعد اپنی پہلی باقاعدہ پریس کانفرنس کے ساتھ نافرمانی کے موڈ میں نظر آئیں اور حکومت، اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرکے اور اپنی ہی پارٹی کے صدر شہباز شریف سے اختلاف کرکے لوگوں کو حیران کردیا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ اپوزیشن میں سب اچھا نہیں ہے۔ اِن دو پشرفتوں نے پہلے سے ہی کشیدہ سیاسی صورتحال کو غیریقینی صورتحال میں بدل دیاہے اور یہ وزیراعظم اور ان کے وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا حقیقی امتحان ہوگا۔ آئندہ ایک یا دو ماہ میں جس طرح سے صورتحال بدلے گی وہ سیاسی طورپر اہم ہوگا۔ اپوزیشن کے ذرائع کہتے ہیں اے پی سی نہ صرف ’ڈیکلیریشن‘ جاری کرے گی بلکہ اسلام آباد کی جانب حتمی مارچ سے قبل مختصر مدتی اور طوی مدتی حکمتِ عملی بھی بتائیں گے۔ انتظار کرناہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کیا اے پی سی کسی گرینڈ اپوزیشن الائنس میں تبدیل ہوتی ہے یا تحریک کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ اے پی سی کو بجٹ پر بحث اور ’ووٹ‘سے چند دن قبل ہی طلب کیاگیا۔ اس وقت حکومت کو بجٹ منظور کرانے میں زیادہ مشکل کا سامنا نہیں ہوسکتا کیونکہ وزیراعظم ذاتی طور پر تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ بات کررہے ہیں اور ان کے متعلقہ مطالبات بشمول ایم کیو ایم (پاک) اور پی ایم ایل(ق) کو ایک ایک وزارت دینا مان چکےہیں۔ تاہم انھیں تاحال بی این پی(مینگل)کے چھ نکات سے نمٹنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اپوزیشن کی بجٹ کو روکنے کی امید صرف پی ٹی آئی کے اتحاد میں تقسیم پر منحصر ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تمام اپوزیشن پارٹیوں بشمول سابق وزیراعظم نواز شریف جوکوٹ لکھپت جیل میں سات سال کیلئے قیدکاٹ رہے ہیں، کو اعتماد میں لے کر اے پی سی بلائی ہے۔ بی این پی (مینگل) نے تاحال اے پی سی میں شرکت کا فیصلہ نہیں کیا لیکن مولانا نے اس کے اہم رہنما سردار اختر مینگل سے چند دن قبل اہم ملاقات کی ہے اور اخترمینگل نے اپنی پارٹی کی سپورٹ کیلئے چند شرائط رکھی ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے بجٹ تقریر کے دوران وزیر اعظم کی موجودگی میں احتجاج کرنے پر سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا تھا، انھوں نے شدید غصے کا اظہار کیا اور اپنے ایم این ایز کو ہدایت کی کہ اپوزیشن رہنما شہباز شریف کو بولنے نہ دیں۔ نیب کی جانب سے سابق صدرآصف زرداری کو گرفتار کرنے کے بعد صورتحال مزیدخراب ہوگئی اورسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر وزیراعظم کی جانب سےدبائومیں آگئےکہ وہ زرداری اورپی ایم ایل(ن) کے رہنماخواجہ سعدرفیق کے پروڈکشن آرڈرجاری نہ کریں۔ بعد میں پی ٹی آئی کے عقل مند لوگوں کے مشورے پر وزیراعظم نے اپنا موقف نرم کرلیا اور حکومت اور اپوزیشن دونوں نے یہ سمجھوتا کیا کہ کوئی بھی کسی رکن کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی نہیں کرے گا۔

تازہ ترین