• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اونچائی سے گرنے اور سب کچھ چِھن جانے کا خوف کیا ہوتا ہے تمہیں نہیں معلوم۔‘‘وہ دُور خلا میں دیکھتےہوا بولا۔’’یار! کس چیز کا خوف ہے تمھیں، کیا نہیں ہے تمہارے پاس، اپنا گھر، اچھی بیوی، اولاد، نوکر چاکر اور پھلتا پھولتا کاروبار۔ جس چیز کی تم نے چاہ کی، وہ تمھیں مل گئی، پھر یہ کیسا خوف ہے؟‘‘اس نے ایک گہرا سانس لیا اور بولا،’’مجھے ہر لمحہ محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ میرے پاس ہے،وہ کہیں مجھ سے چِھن نہ جائے،مَیں نے سالوں محنت کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے، لیکن ایک اَن جانا سا خوف ہے کہ جس اونچائی تک مَیں پہنچ گیا ہوں، اگر اس سے نیچے گرا تو پھر اٹھ نہیں پائوں گا،سب ریزہ ریزہ ہو جائے گا،سب کچھ چِھن جائے گا،اور جب آپ کے پاس کچھ نہیں رہتا تو پھر سگے بھی منہ پھیر لیتے ہیں،بس یہی خوف ہے، جو مجھے چین نہیں لینے دیتا، لیکن تم اس کیفیت کو نہیں سمجھو گے۔‘‘اس نے ایک بار پھر وہی جملہ دہرایا، جو وہ پچھلے کچھ عرصے سے کئی بار میرے سامنے بول چُکا تھا۔

منصور اور مَیں کالج میں ساتھ تھے، پھر یونی ورسٹی میں بھی ہمارا داخلہ ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں ہوا، وقت گزرنے کے ساتھ ہماری دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ پڑھائی میں تو وہ ہمیشہ ہی سے بہت اچھا تھا، لیکن اس سے زیادہ جو بات اُس کی مجھے پسند تھی، اُس کی اعلیٰ سوچ تھی۔وہ ہمیشہ سے بڑے خواب دیکھنے کا عادی تھا۔ اکثر ہم دوست یار اس کا مذاق بھی اُڑاتے، لیکن اس نے کبھی کسی کی پروا نہیں کی اور ہمیشہ کچھ کر گزرنے کی چاہ رکھی۔اور اسی بڑی سوچ اور اونچے خوابوں کے باعث آج اس کے پاس وہ سب کچھ تھا، جس کی کوئی انسان خواہش رکھتا ہے، لیکن کچھ عرصے سے وہ ایک اَن جانے سے خوف کا شکار تھا۔کچھ دِنوں بعد اس کا فون آیا ۔’’یار! مَیں نے امریکا شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ ’’لیکن کیوں، یہ اچانک تمھیں کیا ہوا؟‘‘ مَیں نے حیرانی سے پوچھا۔’’کچھ نہیں۔ بس مجھے سمجھ آ گیا ہے کہ اب اگر مَیں مزید یہاں رہا، تو میری کام یابیوں سے جلنے والے مجھے اس اونچائی سے پاتال میں لے جا پھینکیں گے اور پھر وہاں سے اٹھنا میرے بس میں نہ ہوگا۔ ویسے بھی آج کل سرکار ہر پیسے والے کے پیچھے پڑ گئی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے ہم نے یہ سب محنت سے نہیں، لوٹ مار کرکے بنایا ہے۔‘‘ مَیں اسے روکنا چاہتا تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ اس نے اگر فیصلہ کرلیا ہے، تو پھر اسے کوئی روک نہیں پائے گا۔

وقت پر لگاکر اڑتا رہا۔مَیں اسسٹنٹ مینیجر سے مینیجر اور اب ڈائریکٹر بن چُکا تھا۔ کمپنی کے تین ڈائریکٹرز میں سے ایک میں بھی تھا۔ منصور سے اب رابطہ بہت کم ہو گیا تھا، گو کہ ٹیکنالوجی نے رابطوں کو سہل کردیا تھا، لیکن وقت ہی کہاں تھا اب ہمارے پاس۔ یا شاید ہمارے آس پاس بسنے والے ہر ایک شخص کے پاس، اس لیے منصور سے بھی رابطہ بہت کم ہو گیا تھا۔ ہاں البتہ کچھ عرصے بعد مجھے اطلاع ضرور ملی تھی کہ منصور نے اپنا بزنس امریکا سے یورپ شفٹ کر لیا ہے۔

گزشتہ کچھ دِنوں سے مَیں ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا تھا۔مَیں اب ملٹی نیشنل کمپنی کا سی ای او بن چُکا تھا، لیکن مجھے بھی ایک اَن جانے سے خوف نے جکڑ لیا تھا۔اونچائی سے گرنے کے خوف نے۔ دفتر جاتا تو ایسا لگتا، ہر شخص میری سیٹ پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے، جیسے میں تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں گیا، تو یہ سب میری جگہ پر قابض ہو جائیں گے۔ کبھی لگتا کہ یہ گھر، گاڑیاں، نوکر چاکر، اسٹیٹس سب کچھ چِھن جائے گا اور اتنی اونچائی سے گرنے کے بعد میں دوبارہ اٹھ نہیں سکوں گا۔ سب کچھ چِھن جانے کے بعد میں خالی ہاتھ رہ جائوں گا۔ منصور کہتا تھا کہ میں اس کی پریشانی نہیں سمجھ پاؤں گا۔ دس برس قبل مَیں واقعی سمجھ نہیں پارہا تھا، لیکن اب مجھے اندازہ ہوا تھا کہ منصور کس کیفیت میں مبتلا تھا۔

میں ایک بزنس میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد آیا ہوا تھا، ڈنر کے بعد فائیو اسٹار ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھا کافی پی رہا تھا کہ کسی مانوس سی آواز نے پکارا۔ مڑ کر دیکھا، تو سامنے وہ کھڑا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مُسکرا رہا تھا۔’’منصور…!!‘‘مَیں تیزی سے اٹھا اور اس کے گلے لگ گیا۔ اس کے چہرے پر وہی مُسکراہٹ لوٹ آئی تھی، جو کبھی اُس کا خاصّہ ہوا کرتی تھی۔ مَیں کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔’’اب کھڑا دیکھتا ہی رہے گا یا کافی بھی پلائے گا۔‘‘ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔مَیں جیسے یک دَم ہوش میں آگیا۔’’ہاں، ہاں کیوں نہیں۔‘‘ہم کافی شاپ میں جا بیٹھے۔’’10سال گزر گئے۔وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔‘‘مَیں نے کہا۔ ’’وقت کا پتا کہاں چلتا ہے۔ہاں وقت خود سارے پتے چلا دیتا ہے۔‘‘اس نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔’’اور سُنا کیسی چل رہی ہے تیری جاب؟لگتا ہے بڑا افسر بن گیا ہے تو؟‘‘اس نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔’’بس چل رہی ہے یار۔‘‘’’کیا مطلب چل رہی ہے، خوش نہیں ہے جاب سے؟‘‘اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔’’یار! بس کیا بتائوں۔تجھے یاد ہے، تُو کہا کرتا تھا، اونچائی سے گرنے کا خوف کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ آج کل مَیں بھی اسی خوف کا شکار ہوں۔‘‘ ’’اوہ!اب سمجھا کہ تیرے سَر کے سارے بال کیوں سفید ہو گئے۔‘‘اس نے مُسکراتے ہوئے کہا۔’’میری چھوڑ تُو بتا۔تیراکاروبار کیسا چل رہا ہے؟تُو پاکستان آیا ہوا ہے اور مجھے بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔‘‘مَیں نے خفگی سے کہا۔’’آج صُبح ہی آیا ہوں۔ مَیں واپس پاکستان شفٹ ہو رہا ہوں، اسی سلسلے میں کچھ لوگوں سے میٹنگ تھی ،بس پرسوں واپسی ہے اور اِن شاءاللہ ایک دو ماہ میں مستقل تیرے پاس ہی آجاؤں گا۔‘‘ ’’کیا…؟‘‘ مَیں نے حیرت سے پوچھا۔مَیں سمجھا وہ مذاق کر رہا ہے۔’’لیکن یار تُو تو…میرا مطلب ہے…‘‘مَیں کچھ بول ہی نہیں سکا کہ وہ ہمیشہ ہی سے حیران کر دینے کا عادی تھا۔وہ میری پریشانی سمجھتے ہوئے بتانے لگا’’یار! جس خوف کا شکار ہوکر یہاں سے گیا تھا۔ اس خوف نے امریکا میں بھی پیچھا نہ چھوڑا، ہر شخص مجھے اپنا دشمن معلوم ہوتا تھا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے سب میر ے اسٹیٹس کے پیچھے پڑے ہیں، جس دِن انھیں موقع ملا تو سب کچھ چھین لیں گے مجھ سے، وہاں سے یورپ گیا، لیکن اس خوف سے چھٹکارا نہ پا سکا۔پیرس والے آفس میں میرا ایک ملازم تھا ابراہیم، آفس کے کچھ لوگوں نے اس کی شکایت کی، تو مَیں نے اسے فارغ کردیا۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ قصور اس کا نہیں تھا۔ مَیں نے اپنے سیکریٹری کو کہا کہ اسے واپس بلا لو، لیکن پتا چلا کہ اُس نے گھر تبدیل کر لیا ہے اور اس سے رابطہ بھی نہیں ہو سکا۔ مجھے افسوس تو ہوا، لیکن اتنے کام تھے کرنے کے کہ مَیں اسے بھول بھال گیا۔اُس روز میری گاڑی میکینک کے پاس گئی ہوئی تھی، تو مَیں نے سوچا کہ میٹرو پر چلا جاتا ہوں۔مَیں میٹرو کے اسٹاپ پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ میرے ساتھ ایک شخص آکر بیٹھ گیا۔’’سلام صاحب‘‘مَیں نے دیکھا وہ ابراہیم تھا۔’’وعلیکم السّلام۔‘‘شرمندگی کے مارے میں زیادہ دیر اسے دیکھ نہیں سکا۔ پھر کچھ دیر بعد مَیں نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے کہا’’مجھے بعد میں پتا چلا کہ تم قصوروار نہیں تھے،مَیں نے تمہارا پتا لگانے کی بہت کوشش کی، لیکن تمہارا کوئی سراغ نہیں ملا۔‘‘’’کوئی بات نہیں صاحب، آپ کے پاس میرا اتنا ہی دانہ پانی لکھا تھا۔‘‘ وہ معصومیت سے بولا۔ ’’کیا کام کررہے ہو؟گزارہ کیسے ہوتا ہے؟‘‘’’بس صاحب۔جس دِن آپ نے فارغ کیا تھا، اس دِن کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کروں گا؟ گھر کیسے چلے گا؟ہزار سوال تھے ذہن میں، لیکن صاحب! آپ یقین کریں کہ اُس دِن کے بعد ایک دِن بھی ایسا نہیں گزرا، جس میں کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔کوئی ایک دِن ایسا نہیں گزرا، جس میں ہم بھوکے سوئے ہوں، صُبح اٹھتا ہوں تو پتا نہیں ہوتا کہ آج کیا کام ملے گا۔ صُبح بھوکا اٹھتا ہوں، لیکن سوتے ہوئے کبھی مَیں اور میرے بچّے بھوکے نہیں سوئے۔ جیسے پرندے صُبح بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو خالی پیٹ نہیں لوٹتے۔ اسی طرح اللہ مجھے بھی کبھی خالی پیٹ نہیں لوٹاتا۔ اس کی دُنیا ہے، اس کا نظام ہے، وہ چلا رہا ہے، کیسے؟ اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہی مجھے، بس اتنا یقین ہے کہ وہ اپنے بندے کو لاوارث نہیں چھوڑتا۔‘‘

اس کے رُوٹ کی گاڑی آ گئی تھی، وہ مجھے سلام کر کے چلا گیا۔ مَیں نہ جانے کتنی دیر وہاں بیٹھا رہا۔ پیروں میں جیسے سکت ہی نہیں رہی تھی اٹھنے کی۔ مَیں گھنٹوں وہاں بیٹھا رہا، ایک کے بعد ایک میٹرو گزرتی گئی، لیکن شاید وہ میری منزل تک نہیں جاتی تھیں یا شاید میری منزل ہی بدل گئی تھی۔کیا تھی میری منزل؟ وہ جس کی طرف میں کئی برسوں سے سفر کر رہا تھا یا وہ جس کا راستہ بظاہر ایک معمولی اور ان پڑھ شخص مجھے بتا گیا تھا۔ کتنا کامل یقین تھا اس کا اپنے رب پر اور میرا یقین کیا تھا؟ مَیں بہت اونچائی سے جیسے نیچے آ گرا تھا، مجھے اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے اونچائی سے گرنے اور سب کچھ چھن جانے کا خوف ختم ہو گیاہے۔ بس اس دِن مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ اب واپس جانا ہے۔ اب نہ اونچائی سے گرنے کا خوف ہے، نہ سب کچھ چِھن جانے کا ڈر،کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ جس طرح میرا رب پرندوں کو تھامے ہوئے ہے، انھیں گرنے نہیں دیتا، اسی طرح کبھی مَیں بھی گرا تو وہ مجھے تھام لے گا، گرنے نہیں دے گا۔

منصور مجھ سے گلے ملا اور واپس چل دیا۔ مَیں اُسے جاتے دیکھتا رہا۔ دس برس قبل جاتے ہوئے مَیں اسے روکنا چاہتا تھا، لیکن آج ایسا نہیں تھا۔ وقت بدل گیا تھا، کیفیت بدل گئی تھی یا شاید دِل بدل گئے تھے۔

تازہ ترین