• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصّہ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السّلام

اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہم السّلام کا قصّہ قرآنِ کریم کی اٹھارویں سورت، سورۂ کہف کی آیات 60 سے82 تک میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری و مسلم میں بہ روایت حضرت اُبی بن کعبؓ اس طرح آئی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’ ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ اپنی قوم، بنی سرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، تو لوگوں نے آپؑ سے سوال کیا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ (حضرت موسیٰؑ کے علم میں اپنے سے زیادہ علم والا کوئی تھا نہیں اس لیے) فرمایا کہ ’’مَیں سب سے زیادہ علم والا ہوں۔‘‘ (اللہ تعالیٰ انبیائے کرامؑ کو خاص تربیت دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بات پسند نہ آئی۔ ادب کا تقاضا یہ تھا کہ اسے اللہ کے علم کے حوالے کرتے۔ یعنی کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ساری مخلوق میں اَعلَم کون ہے) حضرت موسیٰؑ کے اس جواب پر وحی آئی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین پر ہے، وہ آپؑ سے زیادہ اَعلَم ہے، (موسیٰ علیہ السّلام کو جب یہ معلوم ہوا، تو اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ جب وہ مجھ سے زیادہ اعلم ہیں، تو مجھے اُن سے استفادے کے لیے سفر کرنا چاہیے) اس لیے عرض کیا’’ یااللہ! مجھے اُن کا پتا، نشان بتایا جائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو، جس جگہ پہنچ کر وہ مچھلی گم ہوجائے، بس وہی جگہ ہمارے اس بندے کے ملنے کی ہے۔ موسیٰ علیہ السّلام نے حکم کے مطابق ایک مچھلی زنبیل میں رکھی اور چل دئیے۔ اُن کے ساتھ اُن کے خادم، یوشع بن نون بھی تھے۔ دَورانِ سفر ایک پتھر کے پاس پہنچ کر اُس پر سَر رکھ کر لیٹ گئے۔ اچانک مچھلی حرکت میں آئی اور زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔ مچھلی کے زندہ ہوکر دریا میں چلے جانے کے ساتھ ایک دوسرا معجزہ یہ ہوا کہ جس راستے سے مچھلی دریا میں گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کا جریان روک دیا اور اس جگہ پانی کے اندر ایک سرنگ جیسی ہوگئی۔ یوشع بن نون اس عجیب واقعے کو دیکھ رہے تھے۔ موسیٰ علیہ السّلام بیدار ہوئے، تو یوشع بن نون مچھلی کا یہ عجیب معاملہ اُنھیں بتانا بھول گئے اور اس جگہ سے روانہ ہوگئے۔ پورے ایک دن، ایک رات کا مزید سفر کیا۔ جب دوسرے روز کی صبح ہوئی، تو موسیٰ علیہ السّلام نے اپنے رفیق سے کہا’’ ہمارا ناشتا لائو۔‘‘ اس پر یوشع بن نون کو مچھلی کا واقعہ یاد آیا اور اپنے بھول جانے کا عذر کیا کہ شیطان نے مجھے بُھلا دیا تھا اور پھر بتایا کہ وہ مچھلی تو زندہ ہوکر دریا میں ایک عجیب طریقے سے چلی گئی۔ اس پر موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا’’ وہی ہماری منزلِ مقصود تھی، جہاں مچھلی زندہ ہوکر گم ہوئی۔‘‘چناں چہ اُسی وقت واپس روانہ ہوگئے اور ٹھیک اُس راستے سے لَوٹے، جس پر پہلے چلے تھے تاکہ وہ جگہ مل جائے۔ جب اُس پتھر کے پاس پہنچے، تو دیکھا کہ اُس پتھر پر ایک شخص سَر سے پائوں تک چادر تانے لیٹا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے سلام کیا، تو حضرت خضر علیہ السّلام نے کہا’’ اس غیرآباد جنگل میں سلام کہاں سے آگیا۔‘‘ اس پر موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ’’ مَیں موسیٰ ؑہوں۔‘‘ تو حضرت خضرؑ نے سوال کیا’’ موسیٰ ؑ بن اسرائیل؟‘‘ آپؑ نے جواب دیا’’ ہاں! موسیٰ ؑبن اسرائیل، اس لیے آیا ہوں کہ مجھے وہ خاص علم سِکھا دیں، جو اللہ نے آپؑ کو دیا ہے۔‘‘ خضر علیہ السّلام نے کہا کہ’’ آپؑ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکیں گے۔ اے موسیٰ ؑؑ! میرے پاس ایک علم ہے، جو اللہ نے مجھے دیا ہے۔ وہ آپؑ کے پاس نہیں۔ اور ایک علم آپؑ کو دیا ہے، جو مَیں نہیں جانتا۔‘‘ موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا’’ اِن شاء اللہ آپؑ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور مَیں کسی کام میں آپؑ کی مخالفت نہیں کروں گا۔‘‘ حضرت خضر علیہ السّلام نے فرمایا’’ اگر آپؑ میرے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں، تو کسی معاملے کے متعلق مجھ سے کچھ پوچھنا نہیں۔ جب تک کہ مَیں خود اس کی حقیقت نہ بتائوں۔‘‘ یہ کہہ کر دونوں دریا کے کنارے کنارے چلنے لگے۔ اتفاقاً ایک کشتی آئی، تو کشتی والوں سے اُس پر سوار ہونے کی بات کی،جنھوں نے اُنھیں بغیر کسی کرائے کے کشتی میں سوار کرلیا۔ حضرت خضر علیہ السّلام نے سوار ہوتے ہی ایک کلہاڑی کے ذریعے کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے رہا نہ گیا، کہنے لگے’’ اِن لوگوں نے بغیر کسی معاوضے ہمیں کشتی میں سوار کیا، آپؑ نے اس کا یہ بدلہ دیا کہ اُن کی کشتی ہی توڑ ڈالی کہ یہ سب غرق ہوجائیں، یہ تو آپؑ نے بہت بُرا کام کیا۔‘‘ خضر علیہ السّلام نے کہا’’ مَیں نے آپؑ کو پہلے ہی کہا تھا کہ آپؑ صبر نہ کرسکیں گے۔‘‘ اس پر موسیٰ علیہ السّلام نے عذر کیا کہ مَیں اپنا وعدہ بھول گیا تھا، اس بھول پر آپؑ سخت گیری نہ کریں۔‘‘ اس اثناء میں ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے بیٹھ کر اس نے دریا میں سے چونچ بھر پانی لیا۔ خضر علیہ السّلام نے موسیٰ علیہ السّلام کو مخاطب کرکے کہا’’ میرا علم اور آپؑ کا علم، دونوں مل کر اللہ کے علم کے مقابلے میں اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتے، جتنی اس چڑیا کی چونچ کے پانی کو اس سمندر کے ساتھ ہے۔‘‘پھر کشتی سے اُتر کر ساحل پر چلنے لگے۔ خضر علیہ السّلام نے ایک لڑکے کو دیکھا، جو دوسرے لڑکوں میں کھیل رہا تھا۔ اس پر اُنھوں نے اپنے ہاتھ سے اس لڑکے کا سَر اُس کے بدن سے الگ کردیا اور لڑکا مر گیا۔ موسیٰ علیہ السّلام نے کہا’’آپؑ نے ایک معصوم جان کو بغیر کسی جرم کے قتل کردیا۔ یہ تو بڑا ہی گناہ کیا۔‘‘ خضر علیہ السّلام نے کہا’ کیا مَیں نے پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ آپؑ میرے ساتھ صبر نہ کرسکیں گے۔‘‘ موسیٰ علیہ السّلام نے دیکھا کہ یہ معاملہ پہلے معاملے سے زیادہ سخت ہے۔ اس لیے کہا’’ اگر اس کے بعد مَیں نے آپؑ سے کوئی بات پوچھی، تو آپؑ مجھے اپنے ساتھ سے الگ کردیجیے گا۔‘‘ اس کے بعد پھر چلنا شروع کیا، یہاں تک کہ ایک گائوں میں پہنچ گئے۔ اُنہوں نے گائوں والوں سے درخواست کی کہ’’ ہمیں اپنے یہاں مہمان رکھ لیجیے‘‘ مگر اُنہوں نے انکار کردیا۔ اس بستی میں ان لوگوں نے ایک دیوار دیکھی کہ گرا چاہتی ہے۔ حضرت خضر علیہ السّلام نے اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کھڑا کردیا۔ موسیٰ علیہ السّلام نے تعجب سے کہا’’ ہم نے ان لوگوں سے مہمانی چاہی، تو اُنہوں نے انکار کردیا اور آپؑ نے اتنا بڑا کام کردیا۔ اگر آپؑ چاہتے، تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے۔‘‘ خضر علیہ السّلام نے کہا’’ اب شرط پوری ہوچُکی۔ اس لیے ہماری اور آپؑ کی مفارقت کا وقت آگیا ہے۔‘‘ اس کے بعد خضر علیہ السّلام نے تینوں واقعات کی حقیقت بتا دی۔ (معارف القرآن ج5 ص606)

تینوں واقعات کی حقیقت

حضرت خضرؑ نے کشتی ناکارہ کرنے کے بارے میں فرمایا’’وہ کشتی چند مسکینوں کی تھی، جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ مَیں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا ارادہ کرلیا، کیوں کہ آگے ایک بادشاہ تھا، جو ہر صحیح سالم کشتی کو جبراً ضبط کرلیتا تھا‘‘۔ (سورۂ کہف79) اس طرح اس کشی میں نقص پیدا ہوگیا اور وہ ضبط ہونے سے محفوظ رہی۔لڑکے کو قتل کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’اس لڑکے کے والدین (نیک اور) ایمان والے تھے۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ (بڑا ہوکر بدکردار ہوگا) کہیں اُنہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز و پریشان نہ کردے، اس لیے ہم نے چاہا کہ اُنہیں اُن کا پروردگار اس کے بدلے، اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبّت اور پیار والا بچّہ عنایت فرمائے۔‘‘ (سورۂ کہف 80-81)دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچّے ہیں۔ جن کا خزانہ اُن کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے، ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا، تو تمہارے ربّ کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کی عُمر میں آکر اپنا یہ خزانہ نکالیں۔ یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے اور یہ کام مَیں نے اپنی طرف سے نہیں کیے۔ یہ ان باتوں کی حقیقت ہے، جن پر تم صبر نہ کرسکے۔‘‘ (سورۂ کہف82)

حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور قارون

قرآنِ کریم کی اٹھائیسویں سورت، سورۃ القصص کی آیات 76تا83 میں اللہ تبارک تعالیٰ نے قارون کا تذکرہ فرمایا ہے۔ قارون، حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل کا ایک بہت امیر و کبیر لیکن نہایت متکبّر، مغرور، ظالم اور حاسد شخص تھا۔ قرآنِ کریم کے مطابق، اُس کے خزانوں کی کنجیاں کئی طاقت وَر لوگ مل کر بہ مشکل اٹھا پاتے۔ حضرت عطاءؒ سے روایت ہے کہ اُسے حضرت یوسفؑ کا ایک مدفون خزانہ مل گیا تھا(روح المعانی) یحییٰ بن سلامؒ اور سعید بن مسیبؒ نے فرمایا کہ قارون سرمایہ دار تھا اور فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کی نگرانی پر مامور تھا۔ اس عُہدے پر رہ کر اُس نے بنی اسرائیل کو بہت ستایا ۔(قرطبی) حضرت ابنِ عباسؓ کی روایت ہے کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا چچا زاد تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ قارون تورات کا حافظ اور عالم تھا اور ان ستّر اصحاب میں سے تھا، جن کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے میقات کے لیے منتخب فرمایا تھا، مگر اُسے اپنے علم پر ناز و غرور پیدا ہوگیا تھا اور اُسے اپنا ذاتی کمال سمجھ بیٹھا تھا۔ روح المعانی میں محمّد بن اسحاق ؒکی روایت سے نقل کیا گیاہے کہ قارون تورات کا حافظ تھا اور دوسرے بنی اسرائیل سے زیادہ اسے تورات یاد تھی، مگر سامری کی طرح منافق ثابت ہوا۔ اس کی منافقت کا سبب دنیا کی جاہ و عزّت کی بے جا حرص تھی۔ پورے بنی اسرائیل کی سیادت، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو حاصل تھی اور اُن کے بھائی، حضرت ہارونؑ اُن کے وزیر اور شریکِ نبوّت تھے، اس کو یہ حسد ہوا کہ مَیں بھی تو ان کی برادری کا بھائی اور قریبی رشتے دار ہوں، میرا اس سیادت و قیادت میں کوئی حصّہ کیوں نہیں۔ چناں چہ موسیٰ علیہ السّلام سے اس کی شکایت کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ یہ جو کچھ ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، مجھے اس میں کچھ دخل نہیں، مگر وہ اس پر مطمئن نہ ہوا اور حضرت موسیٰؑ علیہ السّلام سے حسد کرنے لگا۔ (معارف القرآن ج5)فرمانِ الہٰی ہے کہ ایک روز قارون بڑی آرائش، ٹھاٹ اور شان و شوکت کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا۔ جو لوگ دنیا کے طالب تھے، کہنے لگے’’ جیسا مال و متاع قارون کو ملا ہے، کاش ایسا ہی ہمیں بھی ملے، یہ تو بڑا ہی صاحبِ نصیب ہے۔‘‘ لیکن جن لوگوں کو اللہ کا علم دیا گیا تھا اور جو صاحبِ ایمان تھے، وہ کہنے لگے’’ تم پر افسوس ہے۔ مومنوں اور نیکوکاروں کے لیے جو ثواب اور اجر اللہ کے ہاں تیار ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں کو ملے گا۔‘‘ (سورۃ القصص 79,80) قارون ایک بخیل شخص تھا، جسے مال و دولت سے بے حد محبّت تھی، وہ زکوٰۃ دیتا اور نہ اپنا مال غریبوں پر خرچ کرتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بار بار تنبیہ کے باوجود، اُس کا غرور وتکبّر، بغض، حسد، بخیلی اور غریبوں سے نفرت روز بروز بڑھتی جارہی تھی، بالآخر اللہ تعالیٰ نے اُسے اُس کے مال و دولت سمیت زمین میں دفن کردیا۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے ’’پس ہم نے قارون کو اور اُس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘ (سورۃ القصص81) اور یوں اللہ نے ایک امیر کبیر، مغرور اور بخیل شخص کو رہتی دنیا تک عبرت کا نشان بنادیا۔

حضرت موسیٰ ؑکی وفات

بنی اسرائیل صحرائے تیہ میں چالیس برس تک بھٹکتے رہے، اس کُھلے میدان سے نکلنے کے لیے صبح سے شام تک روز سفر کرتے، لیکن شام کو اسی جگہ موجود ہوتے، جہاں سے صبح چلے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور حضرت ہارون علیہ السّلام بھی ساتھ تھے۔ ایک دن صحرائے تیہ میں ’’ہور‘‘ نامی پہاڑ پر پہنچے، تو حضرت ہارون علیہ السّلام کا انتقال ہوگیا اور اُنہیں وہیں دفن کردیا گیا۔ 120برس کی عُمر میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا بھی انتقال ہوگیا۔ بنی اسرائیل کے سب لوگ بھی مرکھپ گئے۔ بنی اسرائیل کی اولاد اور حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام اور حضرت کالب علیہ السّلام باقی بچ گئے۔ چالیس برس کی مدّت پوری ہونے کے بعد اللہ کے حکم سے حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام کی قیادت میں بنی اسرائیل شام اور بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ملک الموت کو حضرت موسیٰ کی طرف بھیجا گیا، جب آپؑ کے پاس پہنچے، تو آپؑ نے اُنہیں ایک تھپڑ رسید کردیا، تو ملک الموت واپس اپنے ربّ کے پاس پہنچے اور عرض کیا’’ آپ نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیجا، جو موت کا ارادہ نہیں رکھتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ واپس جائو اور اُنھیں کہو کہ بیل کی پُشت پر ہاتھ رکھیں، تو اُن کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں، ہر بال کے بدلے ایک سال زندگی ملے گی۔‘‘ تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے پوچھا’’ اے پروردگار! پھر کیا ہوگا؟‘‘ فرمایا’’ پھر موت ہے۔‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا’’ تو پھر اب ہی سہی،‘‘ پھر آپؑ نے دُعا فرمائی’’ اے اللہ! اس آخری وقت میں مجھے ارضِ مقدّس کے قریب کردے۔‘‘ اللہ نے آپؑ کی دُعا قبول فرمائی، فرشتے نے اُنھیں ایک عمدہ خوش بُو سنگھائی اور روح قبض کرلی۔ فرشتوں نے آپؑ کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی اور دفن کیا۔ مسندِ احمد میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ جس رات مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا، تو موسیٰ علیہ السّلام کے پاس سے گزر ہوا، آپؑ وہاں سُرخ ٹیلے کے پاس اپنی قبر میں کھڑے نماز ادا فرما رہے تھے۔‘‘

پچاس نمازیں اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا مشورہ

مفسرّین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُمّتِ محمدیہﷺ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض فرمائی تھیں۔ جب رسول اکرمﷺ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے پاس سے گزرے، تو اُنھوں نے فرمایا ’’واپس جایئے اور اپنی اُمّت کے لیے نمازوں میں تخفیف کا سوال کیجیے، کیوں کہ مَیں بنی اسرائیل کو بہت آزماچُکا ہوں۔‘‘ تو حضور اکرمﷺ، موسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بار بار آتے جاتے رہے اور ہر مرتبہ نماز میں تخفیف ہوتی رہی۔ حتیٰ کہ دن و رات میں پانچ نمازوں تک تخفیف ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ یہ ہیں پانچ، لیکن ثواب پچاس ہی کا ملے گا۔‘‘

تازہ ترین