ملکی معیشت اس وقت جس زبوں حالی کا شکار ہے ،عوام کا ہر طبقہ اس کے منفی اثرات کی زد میں ہے خصوصاً روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے محنت کشوں، کم تنخواہ دار ملازمین اور سفید پوش لوگوں کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے اقتصادی وژن اور پالیسیوں کے مطابق نیک نیتی سے اصلاح احوال کے لئے اقدامات کر رہی ہے مگر گزشتہ دس ماہ کے عرصے میں عوام کے حق میں ان کے مثبت نتائج نظر نہیں آئے جس کا اعتراف خود حکومتی زعما بھی دبے الفاظ میں کر رہے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ صورتحال جلد بہت بہتر ہو جائے گی ۔اپوزیشن پارٹیاں اس مسئلے کو جہاں عوام کی ہمدریاں حاصل کرنے کیلئے اجاگر کر رہی ہیں وہیں اس کا حل بھی پیش کرتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے نئے وفاقی بجٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی جس کا مقصد سیاست سے بالا تر ہو کر اور مل جل کر ملک کے معاشی مسائل حل کرنے پر سوچ بچار کرنا ہے۔ اگرچہ حکومتی پارٹی کے بعض لیڈروں نے اس کا مذاق اڑایا اور یہاں تک کہا گیا کہ اپوزیشن کی جانب سے میثاقِ معیشت کی پیشکش فیس سیونگ ہے جو حکومت کبھی نہیں دے گی ۔اس کے جواب میں اپوزیشن کی طرف سے بھی تجویز کی مخالفت میں بیانات آ رہے ہیں تا ہم میڈیا کی اطلاعات یہ ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے ساتھ میثاقِ معیشت کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسپیکر اسد قیصر نے جمعہ کو وزیراعظم سے ملاقات کی جس میں اس موضوع پر تبادلہ خیال ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اعلیٰ سطحی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس میںتمام سیاسی پارٹیوں کو نمائندگی دی جائے۔ زیادہ ترسیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی وزیراعظم کے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت کو سیاست سے بالا تر رکھنے میں ہی قومی مفاد ہے۔ قوم کو معاشی بحران سے بچانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جو متفقہ فیصلے ہوں گے اور اقتصادی پالیسی بنے گی اس سے کاروباری حالات ٹھیک ہوں گے، ٹیکسوں کی وصولی میں آسانیاں پیدا ہونگی، بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی اور لوگوں کے اپنی قیادت پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ آج کل ماضی میں ہونے والی غلط معاشی پالیسیوں کرپشن اور لوٹ مار کا تواتر سے چرچا ہو رہا ہے گزرے ہوئے ادوار میں بقول ایک فاضل مبصر حکومتوں، وزیروں، مشیروں اور اعلیٰ بیورو کریٹس کے تبدیل ہونے سے پالیسیاں بھی ان کی جگہ لینے والوں کی صوابدید کے مطابق بدلتی رہیں جس سے معاشی استحکام متاثر ہوا۔ اس وقت ملک جن مشکلات سے گزر رہا ہے ان سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح دفاع، دہشت گردی اور خارجہ پالیسی پر حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی قیادت میں عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے اسی طرح معاشی پالیسی بھی سیاسی مصلحتوں سے پاک اور متفقہ ہونی چاہئے ۔اصول طے کر لئے جائیں اور متنازع بنائے بغیر ان پر عمل ہو۔ شہباز شریف کی تجویز سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری نے بھی اتفاق کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں متحدہ اپوزیشن جو بھی فیصلہ کرے گی وہی حرف آخر ہو گا ۔حکومت اور اپوزیشن کے بعض حلقے اپنے لیڈروں کی رائے سے اختلاف بھی کر رہے ہیں جس سے یہ معاملہ متنازع ہوتا دکھائی دیتا ہے مگر توقع کی جانی چاہئے کہ میثاقِ معیشت کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر پارٹی سیاست سے ماوریٰ ہو کر غور و فکر کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں جاپان کی مثال کو پیش نظر رکھا جائے جہاں سیاسی رسہ کشی ہوتی ہے مگر معاشی پالیسی کو جو اتفاق رائے سے بنتی ہے نہیں چھڑا جاتا اس کے نتیجے میں وہاں معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی مقاصد کے لئے لیڈروں کی بیان بازی بھی معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے کسی کے ایک بیان سے سٹاک مارکیٹ گر جاتی ہے اور کسی کے بیان سے ڈالر مہنگا ہو جاتا ہے ۔میثاقِ معیشت میں ایسے اصول وضع کئے جانے چاہئیں جن سےسیاسی اختلافات کے معیشت پر برے اثرات نہ پڑیں۔