ایمنسٹی اسکیم جائز ہے یا ناجائز؟ یہ سوال اپنی جگہ مگر اس سے کہیں زیادہ مشکل ترین سوال یہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کے باسی اپنے صالح اور نیک حکمرانوں پر اعتبار کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ کالا دھن سفید کرنے کی پیشکش تو نئی بات نہیں البتہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وزیراعظم ایک نہیں تین بار براہ راست قوم سے خطاب کرکے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اُٹھانے کی ترغیب دے چکے ہیں۔ انہوں نے منت سماجت ہی نہیں کی واضح طور پر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی ہیں مگر پھر بھی لوگ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ ’’حلال‘‘ ایمنسٹی اسکیم ختم ہونے میں ایک ہفتہ باقی ہے مگر ابھی تک لگ بھگ 13000لوگوں نے بے نامی جائیدادیں اور بلیک منی ظاہر کر کے 10ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا ہے جبکہ بلین ٹری سونامی اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر جیسے ’’ہوائی‘‘ منصوبے بنانے والی حکومت اس اسکیم کے ذریعے 400ارب روپے کے محصولات جمع کرنے کا منصوبہ بنائے بیٹھی تھی۔ اگر وزیراعظم لوگوں کو ایمنسٹی اسکیم کی طرف مائل کرنے اور اثاثہ جات ظاہر کرنے پر قائل کرنے کے لئے قوم سے خطاب کے دوران یہ بھی بتا دیتے کہ جس طرح میں نے 2000میں لائی گئی ایمنسٹی اسکیم میں اپنا لندن والا فلیٹ ظاہر کیا تھا اور آج تک اس ڈکلیریشن کا کوئی نقصان نہیں ہوا، اسی طرح آپ بھی اس پیشکش سے فائدہ اٹھائیں اور دائمی سکھ پائیں، تو شاید اس کا مثبت اثر ہوتا اور ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اُٹھانے والوں کا تانتا بندھ جاتا۔
ناقابلِ یقین بات یہ ہے کہ اس سے قبل 2018میں ایک ’’کرپٹ‘‘ حکومت نے جاتے جاتے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا۔ یہ حکومت اپنی ساکھ گنوا چکی تھی، سب کو معلوم تھا کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے اس کے تعلقات ٹھیک نہیں۔ یہ خدشات موجود تھے کہ ازخود نوٹس لینے کے شوقین ’’بابارحمتا‘‘ کی دخل اندازی سے اس ایمنسٹی اسکیم سے مستفید ہونے والے کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ اپوزیشن لیڈر جناب عمران خان کہہ چکے تھے کہ ’’ایسی اسکیمیں کرپٹوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے لائی جاتی ہیں۔ یہ ملک کے دیانتدار لوگوں کو بیوقوف بنانے اور بدعنوان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے کہ وہ دولت لوٹیں اور بعد میں کالا دھن سفید کروا لیں‘‘۔ صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت آئی تو نہ صرف وہ اس اسکیم کو ختم کر دیں گے بلکہ جو اس اسکیم سے فائدہ اُٹھائیں گے ان کے خلاف تحقیقات بھی کروائیں گے مگر ان گئے گزرے حالات میں بھی 84000 پاکستانیوں نے اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اُٹھایا اور قومی خزانے میں کم و بیش 124ارب روپے جمع ہوئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی کامیاب ترین ایمنسٹی اسکیم تھی۔ پاکستان میں پہلی ایمنسٹی اسکیم جنرل ایوب خان نے 1958میں متعارف کروائی جس میں 71000لوگوں نے حصہ لیا اور 1.12ارب روپے ٹیکس جمع ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے 2000میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تو لوگوں میں خوف بھی تھا اور یہ یقین بھی کہ پرویز مشرف ملک کا طاقتور ترین حکمران ہے مگر اس کے باوجود 79200 لوگ مستفید ہوئے اور اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے نتیجے میں قومی خزانے میں صرف 10ارب روپے جمع ہو سکے۔
بنیادی سوال تو یہ ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کیوں لائی جاتی ہے؟ کیا یہ ان لوگوں کا مذاق اُڑانے کے مترادف نہیں جو ایمانداری سے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں؟ کیا ایسا کر کے حکومت خود ترغیب نہیں دے رہی کہ کالا دھن کمائو، ٹیکس بچائو، لوٹ مار کرو اور جب کوئی ایمنسٹی اسکیم آئے تو2 سے 6فیصد ٹیکس دیکر یوں پاک صاف ہو جائو جیسے چور اور ڈاکو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد ایماندار اور دیانتدار ہو جاتے ہیں؟ جن ملکوں میں معیشت کی رجسٹریشن اور ڈاکومنٹیشن نہیں ہوتی، وہاں نہ چاہتے ہوئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا چور دروازہ کھولنا پڑتا ہے۔ ایسی اسکیموں کے ملکی معیشت پر کئی طرح سے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پہلا اور فوری فائدہ تو محصولات کی صورت میں ہوتا ہے۔ دوسرا فائدہ سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمی کی صورت میں ہوتا ہے۔ جب کوئی اپنے اثاثے ظاہر کردیتا ہے، اس کی دولت کو قانونی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے تو پھر وہ سرمایہ کاری کرتا ہے جس سے معاشی سرگرمی کا آغاز ہوتا ہے اور لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ اگر کسی کے اثاثے باہر ہیں اور ڈکلیئر کرکے پاکستان لاتا ہے تو اسے 4فیصد ٹیکس دینا پڑتا ہے جبکہ کوئی بیرون ملک ہی رکھنا چاہتا ہے تو 6فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور فائدہ ٹیکس نیٹ میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے جب لوگ اپنے اثاثہ جات ظاہر کر لیتے ہیں تو پھر وہ فائلر بن جاتے ہیں اور ایکٹو ٹیکس پیئرز کی فہرست میں آجاتے ہیں۔ 2016میں مودی نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا جس کے نتیجے میں لوگوں نے 650 ارب روپے (بھارتی روپیہ)کے اثاثہ جات ظاہر کئے جبکہ اس ایمنسٹی اسکیم کے نتیجے میں 29ارب روپے (بھارتی روپیہ )بطور ٹیکس جمع ہوئے۔ یونان، ارجنٹائن، روس جیسے ممالک ایمنسٹی اسکیم کا کڑوا گھونٹ پی چکے ہیں اس لئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر تنقید محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے مترادف ہے۔
سوال یہ ہے کہ لوگ اس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھا رہے؟ میں نے ایمنسٹی اسکیم سے جڑے ایف بی آر کے ایک افسر سے پوچھا کہ کامیابی کے کیا امکانات ہیں؟ اس نے بتایا کہ 30جون تک 30ارب روپے بھی جمع ہو جائیں تو بڑی بات ہوگی۔ سوچ بچار کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ رعایا کو معلوم ہوچکا ہے کہ آج کل نادر شاہی دور چل رہا ہے جہاں فیصلے کسی عقلی دلیل یا قانونی جواز کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ علت و جبلت کی بنیاد پر احکامات صادر ہوتے ہیں۔ اگر صبح یہ نادر شاہی حکم جاری ہو کہ کوا کالا ہے تو شام تک انتظار کرلیں ممکن ہے کوے کو سفید قرار دیدیا جائے۔