• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کے لوگ چند سال پہلے تک دوسرے مسائل میں ضرور الجھے ہوئے تھے لیکن فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول سے آزاد تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچ سیدھے سادھے سیکولر مسلمان ہیں۔ پشتونوں کو مذہبی معاملات میں سخت گیر کہا جا سکتا ہے مگر فرقہ وارانہ رواداری ان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ رہے آباد کار تو فقہی اختلافات کے باوجود وہ انتہا پسندانہ مناقشتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسی وجہ سے یہاں شیعہ سنی جھگڑے کبھی نہیں ہوئے۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کا منظم آغاز 1999ء میں ہوا۔ بنیادی طور پر اس کا نشانہ ہزارہ قبیلہ کے لوگ تھے جو فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے مخصوص خدوخال کی بدولت الگ پہچان رکھنے کی وجہ سے آسان نشانہ بن سکتے ہیں لیکن جب ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے اور فائرنگ کے اندھا دھند واقعات ہونے لگیں تو وقوعہ کے مقام پر موجود ہر رنگ نسل اور مذہب کے لوگ ان کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے واقعات میں اب تک تقریباً 8 سو ہزارے اور تین سو دوسرے لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں سیکورٹی کے بے شمار اہلکار بھی شامل ہیں۔ چند ممتاز سنی علماء بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں ان عناصر نے شہید کیا جو صوبے میں بدامنی اور لاقانونیت پھیلانے کے لئے وسیع پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پیچھے غیرملکی ہاتھ بھی بعید ازامکان نہیں۔
بلوچستان کے ہزارے جو اس وقت فقہی اختلاف کی بنیاد پر نسل کشی کا شکار ہیں۔ تاریخی اعتبار سے طویل پس منظر رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق ترک منگول (مغل) نسل سے ہے۔ ہزارہ محققین جن کی تائید ہندوستانی اور انگریز مورخین بھی کرتے ہیں کے مطابق تاریخ کے مختلف ادوار میں ان کے آباو اجداد نے ایشیا کے مختلف خطوں میں عظیم سلطنتیں قائم کیں ان میں چنگیز خان، ہلاکو خان اور برصغیر کے مغلیہ حکمران بھی شامل تھے۔ تاریخ میں سرزمین توران کا ذکر ملتا ہے جہاں ہزارہ قوم کے اجداد یعنی ترکوں کی حکومت تھی جس کا دارالحکومت قصدار یاقزدار تھا۔ ترک منگول نسل میں قبول اسلام کے بعد شیعت کا آغاز ہلاکو خان کے بیٹے کے فقہ جعفریہ اختیار کرنے سے ہوا۔ بلوچستان کے ہزارے نکودر قبیلے کا حصہ ہیں جو چنگیز خان کے پوتے نکودرسے منسوب ہے۔ اس کی حکومت ہلمند قندھار اور خاران پر مشتمل تھی۔ امیر تیمور سے شکست کھا کر یہ قبیلہ وسطی افغانستان میں جا بسا اور وہاں ہزارستان کے نام سے آزاد مملکت قائم کی۔ یہ علاقہ ہزارہ جات بھی کہلاتا ہے۔ 1893ء میں افغانستان کے امیر عبدالرحمان نے ہزارستان پر حملہ کر کے ہزارہ محققین کے مطابق 60فیصد ہزاروں کو تہ تیخ اور لاکھوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان میں سے کچھ ایران اور بلوچستان چلے گئے اور کچھ نے روس، آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں کا رخ کیا۔ تاہم اس وقت بھی وسطی افغانستان میں کم و بیش ایک کروڑ ہزارے موجود ہیں۔ یہ زیادہ تر صوبہ بامیان، غزنی، وردگ، پروان بیکنڈی، کابل، ہرات غور بادغیس اور مزار شریف میں آباد ہیں۔ بادغیس اور غور میں سنی ہزارہ جبکہ دوسرے علاقوں میں شیعہ ہزارہ رہ رہے ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی بامیان میں ہے جہاں ایک ہزارہ خاتون جیبہ سرابی گورنر ہیں جنہیں افغانستان میں کسی صوبے کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مہاتما بودھ کے دو بلند و بالا مجسمے صلصال (53میٹر) اور شمامہ (35میٹر) قائم تھے جنہیں طالبان نے بارود سے اڑا دیا ہے۔ انقلاب کے بعد ہزارہ سیاستدان سلطان علی کشتمند افغانستان کے وزیراعظم بنے۔ اس وقت کریم خلیلی ملک کے نائب صدر ہیں۔ شہید استاد عبدالعلی مزاری بہت بڑے سیاسی اور مذہبی رہنما تھے جنہوں نے ہزارہ قوم کے وجود اور شناخت کو اجاگر کرنے کے لئے بہت کام کیا۔
پاکستان میں ہزارہ نسل کے لوگ مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ بلوچستان میں ان کی آبادی تقریباً سات لاکھ ہے ان میں سے 6لاکھ صرف کوئٹہ میں ہیں۔ پنجاب میں لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور سرگودھا میں بھی ہزارہ آبادی موجود ہے۔ 1999ء میں فرقہ وارانہ دہشت گردی شروع ہونے کے بعد کوئٹہ سے مزید لوگ نقل مکانی کر کے ان علاقوں میں آباد ہو رہے ہیں۔ صوبہ پختونخوا کا ضلع ہزارہ بھی اسی نسل کا تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترک ہزارہ چنگیز خان کے حملے کے وقت اس کے ساتھ یہاں آئے امیر تیمور نے ان کی حفاظت کے یہاں ہزارہ رجمنٹ تعینات کی جس نے ہری پور کو اپنا مسکن بنایا۔ بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ کی ہزارہ آبادی کو دو نشستیں اور قومی اسمبلی میں ایک نشست ملتی ہے۔ اس وقت جان علی چنگیزی اور ڈاکٹر رقیہ ہاشمی صوبائی اور سید ناصر علی آغا قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ سردار سعادت علی ہزارہ عبدالخالق ہزارہ، سردار نثار علی، میجر (ر) نادر علی، قیوم نذر چنگیزی اور بعض دوسری شخصیات ان کی رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ پاک فوج کے دوسرے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ کا تعلق بھی اسی قبیلے سے تھا۔ ایک اور ہزارہ سپوت شربت علی چنگیزی پاک فضائیہ میں ایئر وائس مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ہزارہ قبیلے کی زبان ہزارگی ہے جو ترکی فارسی اور سنسکرت زبانوں کے تال میل سے وجود میں آئی۔ سنسکرت کا عمل دخل بامیان میں برصغیر کے لوگوں کی آمد و رفت کا نتیجہ ہے۔ کوئٹہ کے ہزارہ لوگ بہت پرامن اور محب وطن ہیں۔ وہ زیادہ تر تجارت یا ملازمت پیشہ ہیں۔ چپل سازی کی صنعت کی بنیاد یہاں ہزاروں نے ہی رکھی۔ اس کے علاوہ کان کنی میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ کوئلے کی کانوں میں بڑی تعداد میں انہوں نے جانیں بھی قربان کیں۔ ریلوے لائن بچھانے کے لئے سنگلاخ پہاڑوں کو چیر کر سرنگیں بنانا انہی کا کارنامہ تھا۔ ہزارہ دانشور قادر علی نائل اور دوسروں کی نظر میں بلوچستان میں ہزاروں کی ٹارگٹ کلنگ ایک پرا کسی دار ہے جو عرب اور ایرانی نیشنلزم میں شدت پسندی کا عنصر غالب آنے کا نتیجہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہزارہ قوم اس شدت پسندی سے کوسوں دور ہے۔ انہیں صرف فقہی اختلاف کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی حکومت اور سیاسی و مذہبی جماعتیں مل جل کر اس انتہا پسندی کو روکیں اور بلوچستان کے حساس صوبے کو جو پہلے ہی مزاحمتی تحریک کی وجہ سے شورش کا شکار ہے۔ فرقہ واریت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ ایسے وقت میں جب بعض بین الاقوامی طاقتیں بلوچستان اور اس کے وسائل پر قبضے کے لئے بے چین ہیں۔ صوبے کو قانون شکن عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑنا ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہو گا۔
تازہ ترین