• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:خالد پرویز…برمنگھم
پھر ایک عجیب واقعہ ہوا، میں نے خواب دیکھا کہ شام کے پھیلتے ہوئے سایوں میں ایک کھلے میدان میں کھڑا ہوں۔ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میقات کی حدود کی تلاش میں ہوں۔  (میقات یعنی جہاں سے عمرہ یا حج کرنے والے کو حالت احرام میں ہونا ضروری ہے) اور کیامیں بتا سکتا ہوں کہ میقات کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن اپنے چاروں اور دیکھتا ہوں اور جواب دیتا ہوں کہ یہاں سے تو نہیں بتا سکتا۔ لیکن سن رکھا ہے کہ میقات جہاں سے شروع ہوتی ہے وہاں پر نشاندہی کے لئے ستون نصب ہیں۔ آئو چل کر ان کی تلاش کرتے ہیں۔ پھر میں اس کے ہمراہ تھوڑی دور چلتا ہوں تو ایک مسجد سامنے آجاتی ہے اور میں خوش ہوکر اسے بتاتا ہوں کہ یہی وہ ستون ہے جسکی ہمیں تلاش تھی اور میقات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ میقات پر آگیا ہوں تو دو نفل بھی ادا کرلوں اور میں وضو کی تیاری کرنے لگتا ہوں۔ آنکھ کھلی تو صبح کی نماز کا وقت ہوچلا تھا اٹھ کر نماز کی ادائیگی کی اور پھر زندگی کی روزمرہ کی مصروفیات میں مشغول ہوگیا۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ میں بیت اللہ اور دربار رسالتؐ میں حاضری کا پروگرام بن گیا اور ایک صبح برٹش ائرویز کے طیارے سے جدہ ائرپورٹ پر لینڈ کررہے تھے۔عازمین عمرہ کو حج ٹرمینل پر لے جایا گیا ہماری امیگریشن اور کسٹم کے مراحل وہاں پر ہوئے باہر نکلے ٹیکسی کا انتظام ہوا چمکتے ہوئے دن میں دھوپ کی تپش میں شدت آرہی تھی اور ہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے شہر مقدس مکہ کی جانب رواں دواں تھے۔ جوں جوں شہر مقدس نزدیک آرہا تھا تلبیہ میں جوش و خروش اور خشوع و خصوع بڑھتا چلا گیا کہ یہ وہ شہر مکہ ہے جہاں میرے اللہ کا گھر ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ’’سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کی غرض سے بنایا گیااور وہ جو مکہ المکرمہ میں ہے جو باعث برکت اور تمام روئے زمین کے لوگوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔ اس میں نشانیاں ہیں ظاہر جیسے مقام ابراھیم اور جو اس میں داخل ہوا وہ ہوگیا امن میں‘‘ اور یہ شہر مکہ عظمتوں اور بڑی برکتوں والا اس لئے بھی ہے کہ یہاں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پل بڑھ کر جوان ہوئے اور اسی شہر میں آپؐ کو نبوت عطا ہوئی اور اس شہر سے دین اسلام کا وہ ماہتاب طلوع ہوا جس نے کفر کے اندھیروں کو مٹا کر اللہ کی واحدنیت اور ہدایت کی روشنیوں سے دنیا کو منور کیا۔ اس بابرکت شہر مکہ میں جگہ جگہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کے مبارک قدموں کے نشان باقی ہیں۔ یہ شہر مقدس ابراہیم خلیل اللہ کی دعا ہے یہ سارے کا سارا ہی بابرکت ہے۔ اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ یہاں ایک نیکی کا بدلہ ایک لاکھ نیکیوں سے ملتا ہے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ملتا ہے۔‘‘ہوٹل پہنچے سامان رکھا، غسل کرکے تازہ دم ہوئے اور حرم کو چل دیئے بچوں کو کہتا ہوں جب بیت اللہ پر پہلی نظر پڑے تو اپنی نظریں وہیں جمالینا کہ یہ وقت دعا کی مقبولیت کا ہے۔ اس وقت جو مانگنا ہے مانگ لینا، رب کعبہ اس وقت مانگی ہوئی دعا رد نہیں  کرتے باب عبدالعزیز سے مسجد حرام میں داخل ہوئے زبان پر لبیک کا کلمہ جاری ہے۔ تھوڑی دور چلے تو اللہ کا گھر ہمارے سامنے تھا۔ اللہ اکبر رب کعبہ کی بڑائی بیان کی، دعا کے لئے ہاتھ بلند ہوئے اور بے اختیار میری زبان سے نکلا اے رب کعبہ میں زندگی میں جو بھی دعا مانگوں تو اسے قبول فرمانا۔ دعاسے فارغ ہوکر حجراسود والے کونے پر پہنچ کر طواف کی نیت کی اور طواف شروع کردیا۔ ارے! یہ میں کس مقام پر چل رہا ہوں یہاں تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ابراہیم خلیل اللہ تک نجانے کتنے ان گنت انبیاء کے نقش پا ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر میرے آقا ﷺ کے مبارک قدم بھی تو یہاں پڑے ہیں میں جاگتی آنکھوں سے اپنے اللہ کے اس عظیم احسان اور انعام کا مشاہدہ کررہا تھا۔ میں بیت اللہ کے گرد گھومتے ہوئے اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کررہا تھا۔ اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے اور طاقت اور قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے جو بزرگی اور عظمت والا ہے۔ میری یہ صدا ان ستر ہزار فرشتوں کی آواز کے ساتھ مل رہی ہوگی جو ہر روز بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام نے بھی اپنے طواف کے دوران فرشتوں کو یہی کلمات پڑھتے ہوئے دیکھا اور سنا تھا۔ میرے آقا نبی کریم صلی اللہ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ ہر روز اس گھر پر ایک سو بیس رحمتیں نازل فرماتے ہیں، ساٹھ رحمتیں طواف کرنے والوں پر اور چالیس نماز پڑنے والوں اور بیس ان لوگوں پر نازل ہوتی ہیں جو صرف بیٹھے ہوئے بیت اللہ کو دیکھتے رہتے ہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا یہ گھر اسلام کا ستون ہے جو کوئی اس گھر کے حج یا عمرہ کیلئے آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا کہ اگر وہ فوت ہوجائے تو اسے جنت میں داخل کرے اگر اسے واپس بھیجے تو اجروغنیمت کے ساتھ واپس بھیجے۔‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا ’’جو آدمی گھر سے نکلتا ہے اور بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کے لئےآتا ہے تو رحمت میں داخل ہوتا ہے۔ جب اس میں داخل ہوتا ہے تو پھر جو قدم اٹھاتا ہے اور رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے پانچ سو نیکیاں عطا کرتا ہے اور پانچ سو درجے بلند کرتا ہے اور پانچ سو گناہ معاف فرماتا ہے جب طواف سے فارغ ہوتا ہے تو پھر مقام ابراہیمؑ کی پچھلی جانب دو رکعت نماز ادا کرتا ہے تو وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے پیداش کے وقت تھا۔‘‘ حضرت عطاءؒ کی ایک روایت ہے کہ بیت اللہ کا دیکھنا ایک سال کی نفلی عبادت کے برابر ہے اور ابن الصائب مدنیؒ کہتےہیں جو ایمان و تصدیق کے ساتھ کعبہ کو دیکھے اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں۔ پھر اس عظمتوں والے گھر کے ساتھ چکر پورے کرکے اور طواف سے فارغ ہوکر مقام ابراہیم کے پیچھے دو نفل ادا کئے۔ زم زم پیا اور پھر سعی کے لئے صفا پہاڑی کی جانب بڑھے صفا اور مروہ کو رب کریم نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ صفا پر ذرا بلندی پر کھڑے ہوکر کعبہ کی طرف منہ کرکے سعی کی نیت کی۔ تکبیر و تہلیل بیان کی اور نیچے اتر کر برآمدے سے ہوتے ہوئے مروہ کی طرف چل پڑے۔ اللہ کے حکم پر خلیل اللہ جب حضرت ہاجرہؓ اور دودھ پیتے معصوم بچے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اس وقت اس غیرآباد اور بیابان مقام پر چھوڑ کر چلے گئے اور پھر جب حضرت ہاجرہ کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پیاس سے تڑپنے لگے تو بے قراری اور بے چینی کی حالت میں حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا اور کبھی مروہ پر چڑھتیں کہ شاید کہیں سے پانی نظر آجائے، جب نشیب سے گزرتے ہوئے حضرت اسماعیل نظر سے اوجھل ہوجاتے تو دوڑ کر گزرتیں اس طرح سات چکر لگائے اور رب کعبہ کو یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ سات چکروں کی اس سعی کو قیامت تک حج و عمرہ کا لازمی رکن قرار دیا۔ آج کل دو سبز لائٹس سے دوڑنے والی جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رب کعبہ کی کبریائی بیان کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی کی التجائیں کرتے سعی کی تکمیل کرنے کے بعد کر عمرہ کیلئے آخری شرط بھی پوری ہوگئی اور میں بیت اللہ کے سامنے کھڑا ہاتھ پھیلائے رب کعبہ سے اپنے عمرہ کی قبولیت کیلئے التجا کررہا تھا۔ دوسرے روز پھر عمرہ کی ادائیگی کا پروگرام بنا، صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعد عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے مکہ سے چھ کلومیٹر دور تنعیم میں مسجد عائشہ کی جانب روانہ ہوئے کہ مکہ مکرمہ میں مقیم لوگوں کیلئے عمرہ کا احرام باندھنے کیلئے میقات ہے۔ رسول اللہﷺ نے حج الوداع کےموقع پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبدالرحمٰنؓ کو حکم دیا تھا کہ اپنی بہن کو تنعیم سے عمرہ کروائیں ایک اور روایت میں ہے کہ آپﷺ نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم چلی جائو اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ لو۔ اب وہاں اس مقام پر ایک خوبصورت مسجد تعمیر ہے، ہم مسجد عائشہؓ پہنچے احرام باندھا نوافل ادا کئے۔ عمرہ کی قبولیت اور اس کی ادائیگی میں آسانی کے لئے دعائیں کرتے حرم کیلئے واپسی کیلئے گاڑی میں بیٹھے، سفر شروع ہوا تو اچانک میری نظر سڑک پر پڑی تو میرے جسم و جان میں ایک بجلی سے کوندی اور سنسنی کی ایک لہر میرے پورے وجود میں دوڑ گئی۔ میں حیرت زدہ رہ گیا کہ ہو بہو وہی ستون جنہیں چند ہفتے پہلے خواب میں دیکھا تھا ایک حقیقت کے روپ میں  میرے سامنے موجود تھے میں نے نظراٹھائی تو مسجد عائشہؓ اپنی بھرپور عظمت اور شان سے میرے سامنے تھی۔ جذبات و احساسات میں ایک ناقابل بیان ہلچل مچ گئی مجھے محسوس ہوا جیسے میں کوئی گوشت پوست کا نہیں بلکہ کانچ کا بنا ہوا ایک انسان ہوں جو اس کیفیت کے دبائو سے چٹخ کر کرچیاں کرچیاں ہوکر بکھر جائے گا۔ میں یہاں سے ہزاروں میل دور انگلینڈ کی سرزمین پر اپنے گھر میں خوابیدہ انسان مسجد عائشہؓ اور میقات کی حدود کی نشاندہی کرنے والے ان ستونوں کے درمیان رشتوں اور تعلق کی گھتی سلجھانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ اس سارے واقعے نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ گاڑی حرم کے سامنے آکر رکی مسجد حرام میں داخل ہوتے ہوئے زبان پر لبیک کی پکار تھی کہ میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں  حاضر ہوں، بے شک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لئے ہیں اور ملک بھی، تیرا کوئی شریک نہیں ایک بار پھر عمرہ کے طواف کیلئے بیت اللہ کے گرد سات شکر لگاتے ہوئے اللہ کی عظمت اور بڑائی بیان کررہا تھا۔ طواف کی تکمیل کے بعد نوافل ادا کرنے کیلئے سربسجود ہوا اور پھر جب دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو صبرو تحمل کے سب بند ٹوٹ گئے۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا اور کعبہ اپنی پوری ہیبت، عظمت اور جلال کے ساتھ میرے سامنے موجود تھا۔
تازہ ترین