• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضور اکرمﷺ کی محبت ایمان کا جزو لازم ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے ضروری ہے کہ ہر شخص میں رسول اکرمﷺ کی محبت اپنی جان، اہل و عیال، مال و دولت اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ ہو۔ جس شخص کا دل حضور اکرمﷺ کی محبت سے خالی ہو وہ مومن کہلانے کا حقدار نہیں اس پر دنیا اور آخرت دونوں میں عذاب نازل ہونے کی وعید ہے جبکہ نبی کریمﷺ سے محبت رکھنے والوں کیلئے دنیا و آخرت میں گراں قدر فائدے اور عظیم ثمرات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید میلادالنبی کا دن امت مسلمہ کیلئے بالخصوص اور عالم انسانیت کیلئے بالعموم نہایت اہمیت کا حامل ہے اور آپ کا یوم ولادت مسلمانوں کی سب سے بڑی عید تصور کی جاتی ہے۔ اس سال یہ مبارک دن پوری مسلم دنیا میں بڑے جوش و خروش اور عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ پاکستان میں اس دن کی مناسبت سے جشن کا سماں تھا اور ہر پاکستانی جذبہ حب رسول سے سرشار تھا۔ اس سال جو گرمجوشی دیکھنے میں آئی اس کی مثال گزشتہ سالوں میں پہلے کبھی نہیں ملتی۔ نبی کریم کے یوم ولادت کو گرمجوشی اور جوش و خروش سے منانے کا ایک مقصد اسلام اور نبی کریم کے دشمنوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ تمام تر سازشوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود اسلام اور نبی کریم کی محبت میں کمی نہیں لائی جاسکتی بلکہ اُن کے اسلام مخالف رویّے سے اسلام اور نبی کریم سے محبت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
عیدمیلاد النبی کے سلسلے میں معروف مذہبی اسکالر اور میرے قریبی دوست ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے جیو ٹی وی پر یکم ربیع الاول سے12 ربیع الاول تک ”جیو عشق میں نبی کے“ کے عنوان سے خصوصی نشریات پیش کیں جس میں ملک کے ممتاز علمائے کرام اور ثناء خوانوں نے حضور اکرم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس مبارک دن کی مناسبت سے ڈاکٹر عامر لیاقت نے11 ربیع الاول کی شب داتا دربار لاہور سے براہ راست ایک بڑے پروگرام کا انعقاد بھی کیا جس میں ہزاروں عاشقان رسولﷺ نے شرکت کی اور یہ نشریات رات بھر جاری رہی جبکہ 12 ربیع الاول کے دن بھی ”جیو عشق میں نبی کے“ کا خصوصی پروگرام نشر کیا گیاجس میں، میں بھی مدعو تھا۔ پروگرام میں شریک مجھ سمیت تمام شرکاء کی رائے تھی کہ ”ہم عیدمیلادالنبی کا جشن ضرور منائیں مگر ساتھ ساتھ حضور اکرمﷺ کے احکامات پر بھی عمل کریں کیونکہ اسی میں مسلمانوں کی فلاح ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی امتیازی حیثیت قرآن پاک میں وضاحت سے بیان فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”نہ تو آپ کی شخصیت کوئی عام شخصیت ہے اور نہ ہی آپ کے احکامات کوئی عام اور سرسری احکامات ہیں“۔ حضور اکرمﷺکی شخصیت نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی خصوصی اہمیت و مقام رکھتی ہے۔ مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب "The Hundred" میں دنیا کی اُن 100 عظیم ترین شخصیات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ مصنف نے اُن 100 عظیم ترین شخصیات میں حضور اکرم کی شخصیت کو سب سے پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ ”حضرت محمد ﷺ پوری نسل انسانی میں سیدالبشر کہلائے جانے کے لائق ہیں“۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتا ہے” محمدﷺ دراصل سروراعظم ہیں، اُن کے15سال کے قلیل دور میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرڈالی، مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں‘ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا“۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ محمد ﷺاس دنیا کے رہنما بنیں“۔ گاندھی لکھتا ہے ”بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی، میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا“۔ جرمنی کا مشہور ادیب‘ شاعر اور ڈرامہ نگار گوئٹے‘ حضور اکرم ﷺکا مداح اور عاشق تھا ‘اپنی تخلیق ”دیوانِ مغرب“ میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمدﷺ کا اظہار اور اُن کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں۔ فرانسیسی محقق ڈی لمرٹائن اپنی کتاب ”تاریخ ترکی“ میں لکھتاہے۔ ”اگر انسانی عظمت کو ناپنے کیلئے تین شرائط اہم ہیں جس میں مقصد کی بلندی، وسائل کی کمی اور حیرت انگیر نتائج تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کون سی شخصیت محمدﷺ سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے؟“ مصنف نے مزید لکھا ہے کہ ”فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون ساز، سپاہ سالار، ذہنوں کے فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنیوالے، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والے اور بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنیوالے صرف محمدﷺ ہی ہیں“۔
دنیا کے کسی انسان کی سیرت اتنی جامع اور مکمل نہیں جتنی حضور اکرم کی سیرت مبارکہ ہے۔ دنیا کا ہر فرد آپ کی سیرت سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرسکتا ہے خواہ وہ بادشاہ ہو یا حکمراں، سیاستدان ہو یا فوجی کمانڈر، تجارت پیشہ ہو یا معلم، باپ ہو یا شوہر، اس بات کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مغربی ممالک میں حضوراکرمﷺ کی شخصیت سے متاثر ہوکر ان پر ریسرچ کی جارہی ہے اور امریکہ و یورپ کے لوگ حیرت زدہ ہیں کہ کس طرح ایک انسان اتنی خصوصیات کا حامل ہوسکتا ہے۔ وہ اس بات پر بھی ششدر ہیں کہ کس طرح حضور اکرمﷺ نے کم وسائل کے باوجود جنگوں میں فتوحات حاصل کیں اور اسلام کو پھیلایا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم گورڈن میئر نے جب حضور اکرمﷺ کی شخصیت پر ریسرچ کی تو ان پر یہ آشکار ہوا کہ ”جنگ خندق کے موقع پر حضرت ابوہریرہ نے حضور اکرمﷺ سے عرض کیا کہ فاقوں کے باعث ان کے پیٹ پر پتھر بندھا ہے جس پر حضور اکرمﷺ نے اپنا دامن اٹھایا تو اُن کے پیٹ پر2 پتھر بندھے ہوئے تھے، اس کے باوجود مسلمانوں نے جنگ میں فتح حاصل کی۔ اسی طرح جس روز حضور اکرمﷺ کی وفات ہوئی اس وقت گھر میں چراغ جلانے کیلئے تیل خریدنے کے پیسے نہ تھے لیکن حضور اکرمﷺ کے گھر کی دیواروں پر 9 تلواریں لٹک رہی تھیں، حضور اکرمﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ نے حضور اکرمﷺ کی ذرہ بکتر گروی رکھ کر تیل خریدا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم ان اسلامی واقعات سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ہر قیمت پر اپنے ملک کے دفاع کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ”دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو حضور اکرمﷺ کے دور کی اسلامی ریاست کی معاشی حالت کو جانتے ہوں گے لیکن دنیا مسلمانوں کو آدھی دنیا کا فاتح قرار دیتی ہے“۔
افسوس کہ آج حضور اکرم کی شخصیت اور سیرت سے غیر مسلم استفادہ کرکے ان کی بنیادی تعلیمات کو اپنارہے ہیں لیکن مسلمان ان تعلیمات سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یورپ میں فلاحی ریاست کا تصور، عدل و انصاف اور انسانی حقوق کی فراہمی وہ چند مثالیں ہیں جو غیر مسلموں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اپنائی ہیں۔ آج مسلمانوں کے زوال کی ایک اہم وجہ حضور اکرم کی تعلیمات سے دوری، لاعلمی، عدم برداشت اور اخلاقی کردار کی کمی ہے۔ اگر آج مسلمان حضور اکرمﷺکی تعلیمات اور ان کی سیرت طیبہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنالیں تو امت مسلمہ کو درپیش مشکلات اور مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔ نبی کریمﷺ سے محبت کے اظہار کو صرف ایک دن کیلئے مختص نہیں کیا جاسکتا بلکہ محبت کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہنا چاہئے۔اگر ہم نبی کریمﷺ سے سچی محبت کے دعویدار ہیں تو ہمیں نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ کو اپنے لئے مشعل راہ، ان کی اسوہ کو اسوہ کامل اور اپنی زندگی کو اُن کی تعلیمات کے تابع بنانا ہوگا کیونکہ نبی کریمﷺ سے محبت کے ساتھ ان کی اتباع بھی ضروری ہے۔
تازہ ترین