• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مس جمہوریت ! آپ پر الزام ہے کہ آپ عام آدمی کو لفٹ نہیں کرواتیں ۔مٹھی بھرچوہدریوں، سرداروں، وڈیروں اور جاگیر دار خاندانوں نے آپ کو لونڈی بنا کر رکھا ہے اور وہ آپ سے سلوک بھی لونڈی والا ہی کرتے ہیں۔کیا یہ بات درست ہے ؟جناب والا ! میرے خیا ل میں اگر آپ عام آدمی کی تعریف کر دیں تو مہربانی ہوگی کیونکہ اس عام آدمی کی گردان نے تو میری جان عذاب میں ڈال رکھی ہے، جہاں جاؤ عام آدمی ،اِٹ پٹو عام آدمی ،چینلز دیکھو تو عام آدمی ۔یہ عام آدمی نہیں عجیب آدمی ہے جو نہ جانے کیا چاہتا ہے ۔اس کنیز کے علم کے مطابق تو ہر وہ شخص عام آدمی ہے جس کا تعلق ملک کی روایتی elite(اشرافیہ) سے نہ ہو۔اب اگر آپ یہ تعریف درست مان لیں تو میری اگلی گذارش ہوگی کہ موجودہ پارلیمان میں ان ممبران کی گنتی کروا لی جائے جو جاگیردار ہیں اور نہ ہی جدی پشتی رئیس ۔کم از کم ڈیڑھ سو نام تو میں کھڑے کھڑے گنوا سکتی ہوں ۔شہری علاقوں کے زیادہ تر ممبران کا تعلق متوسط طبقے یا زیادہ سے زیادہ اپر مڈل کلاس سے ہے ۔خیبر پختونخواہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ،وہاں کون سے جاگیردار یا سرمایہ دار حکمرانی کر رہے ہیں ؟ ہاں، پنجاب کے دیہات ،خاص طور پر ڈی جی خان ،راجن پور،مظفر گڑھ کی کچھ پاکٹس ،بلوچستان یا پھر سندھ کے دیہی علاقوں میں اب بھی روایتی طاقتور خاندان اور سردار ہی دولت اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر کامیاب ہوتے ہیں مگر یہ صورتحال وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہی ہے جیسے کہ شہری علاقوں میں ہو ئی ۔ویسے جناب والا،آپ بھی عجیب لوگ ہیں ۔ایک طرف تو الزام دھرتے ہیں کہ عام آدمی کے لئے میرے نظام میں کچھ نہیں ،وہیں ساتھ ہی یہ طعنہ بھی دیتے ہیں کہ یہ کیسا نظام ہے جہاں ایک سنیما کا مالک صدر بن جاتاہے اور سائیکل پر پھرنے والا ارب پتی !یہ ہماری منافقت اور ذہنی پستی کا اظہار ہے اور کچھ نہیں ۔ہمیں اس بات کا حسد کھائے جاتا ہے کہ ”ہم جیسا “ شخص اس قدر دولت مند یا طاقتور کیسے ہو گیا!ہم ہر self madeشخص کے خلاف ہیں یعنی اگر عام آدمی منتخب ہو کر اسمبلی میں آ جائے توہم اسی بات کو طعنہ بنا لیتے ہیں مگر دوسری ہی سانس میں یہ رونا بھی روتے ہیں کہ عام آدمی تو بیچارہ اس نظام میں پس گیا۔حالانکہ اگر کوئی روایتی اشرافیہ سے صدر یا وزیر اعظم چن لیا جائے تو ہمیں اتنی تکلیف نہیں ہوتی ۔ہمیں تو اس ملک کا شکر گذار ہونا چاہئے جہاں ایک عام آدمی کے لئے اوپر بڑھنے کے بے شمار مواقع ہیں جبکہ انڈیا میں تو ذات پات ہی جان نہیں چھوڑتی ۔اپنے یہاں تو کوئی بھی اٹھ کر نام کے ساتھ سید لگا لے ،کوئی نہیں پوچھتا۔مس جمہوریت،آپ سے درخواست ہے کہ جتنی بات پوچھی جائے فقط اتنا جواب دیں ۔آپ پر دوسرا الزام ہے کہ کوئی بھی شریف اور پڑھا لکھا آدمی انتخابات یا سیاست میں حصہ نہیں لیتا ،جب بھی ہونہار نوجوانوں سے ان کے کیرئیر کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ سیاست کے علاوہ ہر شعبے کو جوائن کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور اس کی وجہ آپ کی کرپشن ،بد دیانتی اور اقربا پر وری ہے ۔کیا کہنا ہے آپ کا ؟جناب والا! مجھے خوشی ہے کہ آپ نے وہی سوال گھما کے دوبارہ پوچھ لیا ۔جن ذہین نوجوانوں کی آپ بات کر رہے ہیں وہ سیاست میں اس لئے نہیں آتے کیونکہ سیاست میں دوسرے پروفیشنز کی نسبت uncertainty بہت زیادہ ہے ۔فرض کریں کہ ایک شریف اور پڑھا لکھا آدمی اگر سیاست میں آنے کا فیصلہ کر بھی لے تو ہو سکتا ہے کہ کل کو مارشل لا لگ جائے تو اس کا کیرئیر تو دس سال کے لئے ختم ۔کوئی ایسا کیرئیر کیوں اپنائے گا جس کا مستقبل ہمہ وقت مخدوش ہو؟ دوسری وجہ،جناب والا،یہ ہے کہ مجھ غریب کوآپ نے دیا کیاہے جو کوئی میرے پاس آئے !ریاست کے بڑے فیصلوں میں میرا کلی اختیار نہیں جیسے کہ دفاع،خارجہ، معیشت ،ٹیکسوں کی وصولی وغیرہ وغیرہ اور یہ حکومت کا پچاس فیصد بنتا ہے۔باقی پچاس میں سے اسّی فیصد تنخواہوں میں نکل جاتا ہے تو بچا مشکل سے بیس فیصد تو حضور ،گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا !یہ تو ایسے ہی جیسے کوئی آپ کو گاڑ ی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دے اور کہے کہ تم نے گاڑی چلانی ہے مگر دوسرا اور چوتھا گئیر نہیں لگانا۔کنیز کی تیسری دلیل یہ ہے جناب والا کہ ہمارے ہاں سیاست میں اسے لایا جاتا ہے جو نسبتاً کم پڑھا لکھا ہوتا ہے کیونکہ بطور سیاست دان اس کا کام دن میں تین جنازے اور شام کو چار شادیاں بھگتانا ہوتا ہے ،اس کے ہاتھ میں نوکریوں کی عرضیاں ہوتی ہیں یا تھانے کچہری کی سفارش۔اس کے دن بھر کا شیڈول ایسا نہیں ہوتا کہ ہاورڈ سے پڑھ کر آنے والا یہ کام کر سکے ۔یہی وجہ ہے کہ ذہین اور پڑھے لکھے لوگ سیاست کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔مس جمہوریت ،مجھے افسوس ہے کہ آپ کے دلائل خاصے کمزور ہیں ۔آپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ آپ دو نمبر جمہوریت ہیں ،جمہوریت کے نام پر فراڈ ہیں ۔آپ کا نظام اس قدر کھوکھلا ہے کہ اسمیں ٹیکس چور ،بنک ڈیفالٹر ،لٹیرے اور جعلی ڈگری والے ہی اوپر آ سکتے ہیں، کیا آپ کو اس سے انکار ہے ؟جناب والا ! اس باندی میں انکار کی جرات کہاں، میں نے کوئی کون سا بوٹ پہن رکھے ہیں ۔مودبانہ گذارش ہے کہ میرے متبادل نظام پر بھی نظر ڈالئے۔ آمریت میں کیا ہوتا ہے ؟کسی بھی عہدے کے حصول کی واحد شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ ڈکٹیٹر کے کلاس فیلو ہوں، اس کے گرائیں ہوں ،اس کی یونٹ سے تعلق ہو یا کالج میں اس کے ساتھ پڑھے ہوں،بس۔اسکے بعد آپ کو کہیں سے منتخب ہونے کی ضرورت ہے نہ کسی عدالتی پوچھ گچھ کا ڈر۔جب تک ڈکٹیٹر کی خوشنودی حاصل ہے اور وہ اقتدار پر قابض ہے تب تک ستے ای خیراں۔ دوسری طرف اگر کوئی چور بھی ہے تو اسے بھی بہر حال ووٹ لے کر منتخب ہونا پڑتا ہے چاہے مخدوم ہو یا چوہدری اور اس مشق سے اسے ہر پانچ سال بعد گذرنا پڑتا ہے ۔آپ مجھے موقع تو دیں ،عوام خود ہی جعلی ڈگریوں اور چوروں کو منتخب کرنا چھوڑ دیں گے ۔لیکن کہاں جناب والا ،مصیبت یہ ہے کہ آپ مجھے وقت سے پہلے ہی نکال باہر کرتے ہیں اور نتیجے میں جب دس بارہ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں تو لوگ پرفارمنس پر ووٹ دینے کی بجائے اس بات پر ووٹ دیتے ہیں کہ کون سی پارٹی زیادہ مظلوم ہے یا کس پارٹی نے آمریت کے خلاف بہتر اپوزیشن کی ۔تاہم اب کی بار پہلی مرتبہ پرفارمنس پر ووٹ پڑیں گے ما سوائے بلوچستان اور سندھ کے شہری علاقوں کے جہاں کے مسائل کچھ اور ہیں اور وہ جناب والا مجھ سے بہتر جانتے ہیں ۔مس جمہوریت ،الزام تو اور بھی بہت ہیں لیکن فی الحال صرف یہ بتا دیجئے کہ کیا یہ درست نہیں کہ آپ کے سسٹم میں وہی شخص کامیاب ہے جو قانون کی پاسداری نہیں کرتا ،جو شریف آدمی قانون کے مطابق الیکشن لڑنا چاہتا ہے اسے آپ جیتنے نہیں دیتیں ؟ غریب آدمی تو الیکشن کا سوچ بھی نہیں سکتا ،کیا کہیں گی آپ ؟جناب والا ! ہم عجیب لوگ ہیں ،مثالیں دیتے ہیں امریکہ کی اور یہ نہیں جانتے کہ جتنا پیسہ امریکی صدر اپنی مہم پر خرچ کرتا ہے اس کا عشر عشیر بھی ہمارے ہاں خرچ نہیں ہوتا ۔اب حالات بدل رہے ہیں ،کم از کم شہری علاقوں میں خرچہ کم ہوتا ہے کیونکہ اصل خرچہ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں ۔ویسے بھی ہمارے ہاں کالا دھن ہے اور الیکشن مہم کیلئے چندہ مہم اس طرح سے نہیں ہوتی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہے ۔رہی بات قانون کی پاسداری کی تو جناب والا یہ تو معاشرے کا المیہ ہے نہ کہ کنیز کا قصور کہ قانون کی خلاف ورزی کرنیوالے کو لوگ پسند کرتے ہیں اور ووٹ ڈال کر جتوا بھی دیتے ہیں۔جیسے لوگ ہیں ویسی ہی میں ہوں۔مس جمہوریت! ہم نے آپ کے دلائل سن لئے ہیں، اگلی پیشی انتخابات کے بعد ہوگی۔بہت بہتر ،جناب والا۔
تازہ ترین