• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی70سالہ تاریخ میں ریاست آج معاشی لحاظ سے خطرناک دور سے گزر رہی ہے۔ اگرمعیشت کی گرتی ہوئی حالت کو جنگی بنیادوں پر بہتر کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو بقول مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ہم ڈیفالٹ کی طرف جا سکتے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں پہلے ہی ہمارے موٹرویز، ایئرپورٹ اور کئی سرکاری اداروں کی عمارتیں رہن رکھوا چکی ہیں۔ خدانخواستہ صورتحال ڈیفالٹ کی جاتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں عمران خان کی جانب سے ایک 13رکنی قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل 13جون کو عمل میں لائی گئی جس کا مقصد ملک کی معیشت کو ترقی اور بہتری کی جانب لے جانا اور علاقائی روابط کو فروغ دینا ہے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے کونسل کا قیام حکومت کا احسن قدم ہے۔ دوسری طرف کرپشن پر قابو پانے کے لئے گزشتہ دس سالہ غیر ملکی قرضوں کی جانچ پڑتال کے لئے ایکٹ آف پاکستان 2017کے تحت ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کے قیام کی منظوری دی گئی ہے جو 2008سے 2018کے دوران لئے گئے 24ہزار ارب روپے کے قرضوں کی وجوہات اور ان کے استعمال کی جانچ پڑتال کرے گا جس کے سربراہ نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر ہوں گے۔ کمیشن چھ ماہ میں رپورٹ تیار کر کے ماہانہ بنیاد پر اپنی رپورٹ حکومت کو دینے کا پابند ہوگا جبکہ یہ رپورٹ کابینہ کے سامنے بھی پیش کی جائے گی۔ ماضی میں ایسے بہت سے کمیشن بنائے گئے لیکن ایسے کسی کمیشن سے اچھی یادیں وابستہ نہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ وزیراعظم نے جو کمیشن قائم کیا ہے وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے 2008سے 2018تک لئے گئے 24ہزار ارب روپے کے قرضوں کے بارے میں کیا رپورٹ عوام کے سامنے لاتا ہے۔ نئے مالی سال برائے 2019-20 کے لئے جو بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے اس پر قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے 19جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے دس سالہ قرضوں کے سلسلے میں جو کمیشن بنایا ہے اس میں ہم بھی پیش ہوں گے اور عمران خان بھی پیش ہوں ہم اپنے قرضوں کا حساب دیں گے وہ اپنے دس مہینوں میں لئے گئے قرضوں کا حساب دیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے پانچ سال کے دوران 10ہزار ارب روپے قرض لئے جبکہ موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے دس مہینوں میں ہی پانچ ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہماری حکومت نے دس ہزار ارب روپے قرض لے کر یہ رقم دہشت گردی کے خلاف جنگ، موٹروے، میٹروبس منصوبہ، ریلوے کی بحالی، انفرااسٹرکچر اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے پر خرچ کی۔ 11ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جبکہ حکومت نے دس مہینے میں پانچ ہزار ارب روپے کا غیر ملکی قرضہ لیا اور بنایا کچھ بھی نہیں۔ اگر یہ حکومت پانچ سال رہے گی تو خود سوچیں کہ قرضہ کہاں تک پہنچ جائے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف بجٹ کی مہنگائی کا عوام رونا رو رہے ہیں۔ دوسری جانب آنے والے دنوں میں کہا جارہا ہے کہ پٹرول بھی 150روپے لیٹر ہو جائے گا۔ اگرتیل مہنگا ہوگیا تو مہنگائی اپنی آخری حدوں کو چھو لے گی اور پاکستان کے عوام کو نان شبینہ سے بھی محروم کردے گی۔ میرا حکومت کو ایک مخلصانہ مشورہ ہے امید ہے وہ مان لے گی اور وہ یہ ہےکہ وہ حزب اختلاف کو دھمکیاں دینے کے بجائے خود آگے بڑھ کر ملک کو مالی مشکلات اور بحران سے نکالنے کے لئے اس کی مدد حاصل کریں حکومت بچانے کے لئے اتحادیوں میں وزارتیں تقسیم کرنے کے بجائے واحد حل یہی ہے کہ حزب اختلاف سے تصادم سے گریز کیا جائے۔ یاد رکھیں حکومت آنی جانی شے ہے اصل چیز ریاست ہے ریاست کو کمزور نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ وطن بانی پاکستان محمد علی جناح نے مسلمانان برصغیر کی تاریخی جدوجہد کےنتیجےمیں حاصل کیا جس کے لئے تاریخ کی بہت بڑی نقل مکانی بھی کی گئی۔ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے ہر اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے اندر درجہ حرارت بہت بڑھ گیا ہے اگر مزید بڑھا تو جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جمہوریت نام برداشت اور صبر کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سوچنا چاہئے کہ تصادم کی راہ پر چل کر وہ ملک کونقصان پہنچا سکتے ہیں۔

دوسری جانب مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اے پی سی کے فیصلے تسلیم کرنا پڑیں گے انہوں نے اسلام آباد لاک ڈاون کے لئے کمیٹی بنادی ہے۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز نے بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت چلنے نہیں دیں گے۔ ان قائدین کی پیش قدمی ریاست کو سخت ترین سیاسی کشیدگی سے دوچار کر سکتی ناقابل واپسی اور بندگلی میں لے جا سکتی ہے۔ اس کو ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز سنجیدگی سے لیں کیونکہ یہ فیصلے ملک کو ناہمواری کی طرف لے جائیں گے۔ ایسے میں مفاہمت کی کوشش کی کوئی راہ تلاش کرنا چاہئے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز آن بورڈ ہوں۔ آخر میں یہ بات ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ضروری ہے گزشتہ گیارہ مہینے میں ایک اجلاس بھی نہیں ہوا اس کے لئے وزیراعظم اور ان کی حکومت کو رقم و وسائل مہیا کرنا چاہئیں اور ماہانہ بنیادوں پر صوبوں اور وفاق میں اس کے اجلاس منعقد ہونا چاہئیں۔ عرض کرنے کا مقصدیہ ہے کہ موجودہ صورتحال سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔

تازہ ترین